دوستو، آپ جانتے ہی ہیں کہ پاکستان توانائی کے جس شدید ترین بحران سے دوچار ہے۔ اس کی وجہ سے، ہماری انڈسٹری تقریباً بند ہو چکی ہے۔ انڈسٹری بند ہونے کہ وجہ سے بیروزگاری عروج پہ ہے۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد لیڈر اس پیچیدہ صورتحال میں بھی اپنے من پسند صوبائیت، علاقیت اور مذہبیت کے خول سے نکل کر قومی کردار ادا کرنے کہ بجائے، ایک ملک دشمن کا کردار ادا کر رہے۔ ایسے ہی ایک لیڈر اسفند یار ولی ہیں۔ جن کو پاکستان کے مفاد سے ذیادہ غیروں کا مفاد عزیز ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پینسٹھ سالوں میں پاکستانی تو نہ بن سکے اور صرف ایک صوبے کے مفاد کا پرچم ہی لہراتے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ طرفہ تماشہ یہ کہ تنگ نائے قومیت سے تو باہر نکلتے نہیں لیکن اکھنڈ بھارت جیسے وسیع القومی و مذہبی تصور کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ نہ جانے یہ معجزہ کیسے سرانجام پائے گا۔ اکھنڈ بھارت میں جاتے ہی اِن کے چھوٹے چھوٹے دماغ اچانک کیسے بڑے ہو جائیں گے؟
ان عقل کے اندھوں کو کوئی یہ نہیں سمجھاتا کہ جو حقوق آپ ایک چھوٹے سے ملک پاکستان میں حاصل نہیں کر پاتے، وہ ایک بڑے ملک میں کیسے حاصل کر پائیں گے؟ اور جس نام نہاد قومیت پرستی کا پرچم آپ یہاں لہراتے ہیں جہاں آپ کے فلسفے کے مطابق صرف چار قومیتیں بستی ہیں، وہ پرچم آپ ایک ایسے ملک میں جہاں چار سو قومیتیں بستی کیسے لہرا پائیں گے؟
انہی حضرت کے ایک مکالمے کو منیر احمد بلوچ صاحب نے اپنے کالم میں قلم بند کیا ہے، براہ کرم ملاحظہ کیجیے۔
بشکریہ منیر احمد بلوچ، کالم ایک اور ایک، روزنامہ دنیا
No comments :
Post a Comment