Thursday, May 16, 2013

کالا باغ ڈیم - محمد سلیمان خان کے قلم سے

Kala Bagh Dam Model

سائیں!آپ کیوں کالا باغ ڈیم کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ کالا باغ ڈیم تو پنجاب میں بن رہا ہے۔ سارا فائدہ تو پنجاب کا ہے تو پھر سندھ اس کی منظوری کیوں دے؟ یہ وہ سوالات تھے جو سندھ کے بیشتر لوگوں نے کرنل (ر) عبدالرزاق بگٹی سے ملاقاتوں اور میٹنگز میں کئے۔ یہی وہ شوشے ہیں جن کی گرد اڑا کر بھارتی لابی کے چند گماشتے سندھ میں افواہیں اڑاتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننے سے سندھ کی دھرتی بنجر ہو جائیگی۔ اسطرح ایک عام سندھی کو کالا باغ ڈیم کا مخالف بنایا ہوا ہے۔ ورنہ میں جانتا ہوں ایک سندھی بھی پاکستان کا اتنا ہی حامی، جانثار اور وفادار ہے جتنا کوئی اور محب وطن پاکستانی ڈاکٹر مجید نظامی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان یا جنرل حمید گل۔


دنیا بھر میں بڑے ڈیموں کی مخالفت کی گئی ہے اس کے پیچھے صرف یہ عوامل کارفرما تھے کہ بڑا ڈیم بننے سے بہت بڑی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ اس طرح بڑے ڈیموں کی مخالفت صرف ان علاقوں کے لوگوں نے کی کیونکہ بڑا ڈیم بننے سے انہیں اپنے آبائی گھر خیر باد کہنے پڑتے ہیں جو ڈیم کے بننے کی وجہ سے ڈوب جاتے ہیں لیکن بڑے ڈیموں کے قومی ثمرات کی وجہ سے ان آبادیوں کو نہ صرف منتقل کیا گیا بلکہ انہیں اس کا پرکشش معاوضہ بھیدیا گیا جس طرح منگلا ڈیم کی تعمیر کیلئے پورا میرپور شہر ڈیم کی جھیل میں آ گیا تھا۔ اسکی جگہ موجودہ میرپور شہر آباد کیا گیا بلکہ ڈیم میں آنے والے پورے میر پور شہر کی آبادی کو انگلینڈ کا ورک ویزہ دے کر ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کا پورا موقع دیا گیا۔ آج میر پور شہر کا کوئی فرد کروڑ پتی سے کم نہیں۔ تربیلا ڈیم کے متاثرین کو بھی معاوضہ دیا گیا اور انہیں پنجاب اور سندھ میں زمینیں بھی الاٹکی گئیں۔
پاکستان میں انڈس واٹر ٹریٹی1960 کے بعد جتنے بھی آپریشنل نہری منصوبے بنائے گئے ان سے بالخصوص سندھ،بلوچستان اور سرحد کو فائدہ پہنچا جبکہ پنجاب کی ایک تحصیل تونسہ (ڈیرہ غازی خان) کے تھوڑے سے حصہ کو چشمہ رائٹ بنک کینال کی ٹیل سے تھوڑا سا پانی دیا گیا یا پھر پرویز مشرف کے دور میں گریٹر تھل کینال کا منصوبہ بنایا گیا جو ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہے اسے بھی پانی کا ملنا محال رہتا ہے۔ وفاقی حکومت کے اس طرز عمل سے پنجاب کے حقوق کو شدید دھچکا لگا۔ صوبہ سندھ میں ایک مخصوص لابی نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنا واٹر الاﺅنس آسمان پر پہنچا دیا اس طرح پنجاب کے مقابلہ میں 4 گنا زیادہ پانی حاصل کیا اسکے مقابلہ میں پنجاب کو کالا باغ ڈیم کا سبز باغ دکھا کر آئندہسکیمیں بنانے سے محروم رکھا کہ کالا باغ ڈیم بنے گا تو آپ کی نہریں بنیں گی مگر جب کالا باغ ڈیم بننے کا عمل شروع ہوا تو ضیاءالحق کے ایک جنرل فضل حق نے اپنے مخصوص مفادات میں اس قومی منصوبے کے ساتھ غداری کی جس کا پورا فائدہ بھارتی لابی نے اٹھایا اور کالا باغ ڈیم کی شدید مخالفت کو اپنے ایمان کا حصہ بنا کر سیاسی ایشو بنالیا۔


کالا باغ ڈیم مخالف لابی جو دراصل ان لوگوں کی تھی جنہوں نے قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی بلکہ آجبھی پاکستان کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انہوں نے الزامات کیاتنی گرد اڑائی کہ ایک اچھا خاصا باشعور شہری بھی اسسے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ حتیٰ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ایک بار کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں اپنا بیان دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پہلے دور حکومت میں جب کالا باغ ڈیم کی منظوری کا کیس پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میں اٹھایا گیا تو سندھ کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے پہلے (WAA)Water Apportionment Accordکا ہونا ضروری ہے تاکہ پتہ لگے کہ کالا باغ ڈیم بننے سے کس صوبے کو کتنا پانی ملے گا۔ صوبہ سندھ کے اعتراضکی تائید میں صوبہ بلوچستان نے بھی یہی مطالبہ کیا۔
چنانچہ1991ءمیں اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کیلئے چاروں صوبوں نے متفقہ طور پر پانی کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق کیا۔ اس سے پہلے پنجاب مستعمل پانی کا53.042 فیصد پانی استعمال کر رہا تھا۔ (واضح رہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے بعد ملنے والے اضافی پانی سے پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں آپریشنل نہریں بنی تھیں مگر اسکے ثمرات سے پنجاب کو محروم رکھا گیا تھالیکن پنجاب نے محض کالا باغ ڈیم کی منظوری کےلئے صرف 37 فیصد پانی کا شیئر قبول کرتے ہوئے WAA پر اتفاق کیا۔ اس معاہدہ کے تحت نہ صرف کالا باغ ڈیم منظور ہوا بلکہ ارسا کی منظوری بھی دی گئی۔کالا باغ ڈیم 6.1 ملین ایکڑ فٹ کا ڈیم ہے لیکن یاد رہے کہ ڈیم میں صرف پانی جمع نہیں ہوتا بلکہ ڈیم کا اصل مقصد واٹر مینجمنٹ ہوتا ہے۔ اس طرح6.1ملین ایکڑ فٹ کے بجائے اس سے 11.62 ملین ایکڑ فٹ پانی کا اضافہ ہو گا WAA1991 سے پہلے مستعمل پانی 102.73 ملین ایکڑ فٹ تھا۔کالا باغ ڈیم کی منظوری کے بعد مستعمل پانی کی مقدار114.35 ملین ایکڑ فٹ کر دی گئی جبکہ 3ملین ایکڑ فٹ کی سول نہریں الگ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ WAA کی منظوری کے بعد وزیراعلیٰ سندھنے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں 4.5 ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی ملے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ کے یہ الفاظ انفارمیشن منسٹری کے شائع ہونے والے گزٹ میں محفوظ ہیں۔

 
WAA1991 کے تحت معاہدہ میں آرٹیکل 8 کے تحت صوبوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مقرر کردہ شیئر میں سے پانی کے ممکنہ منصوبے بنا سکتے ہیں:
There would be no restriction on the provinces to undertake new projects with their agreed shares
چنانچہ صوبہ سرحد (خیبر پی کے) میں جنوبی پانچ اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، لکی مروت اور کرک کے8 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ کو سیراب کرنے کےلئے کالا باغ ڈیم سے نہر نکالی جائے گی۔ صوبہ بلوچستانکیلئے تونسہ بیراج سے کچھی کینال کا منصوبہ شروعہوا جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے WAA کی منظوری کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہماری 10 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہوگی۔ اس طرح پنجاب میں بھی گریٹر تھل کینال اور داجل کینال کی Extention کے منصوبے ہیں۔
اب سوال ہے جو سندھ میں انڈینلابی کے افراد اٹھا رہے ہیں۔ سندھ میں گدو بیراج سے اپنی کینال نکالنے کا منصوبہ ہے جس سے 3 لاکھ ایکڑ سے زائداراضی سیراب ہو گی۔ سکھر بیراج سے Left Bank Out fall drain(LBOD) ہے جو مکمل ہو چکا ہے۔ اس منصوبہ کے دو مقاصد ہیں۔ یہ کہ سیلاب کے دنوں میں سیلابی پانی ایک ایک حصہ کیلئےمتوازی دریا کا کام دیتے ہوئے بعد میں پانی واپس آگے جا کر دریا میں ڈال دیا جائیگا۔ دوسرے اس ڈرین سے 2.2 ملین ایکڑ فٹ پانی سے خریف سیزن میں آبپاشی کی جائیگی۔ اس سے وسیع رقبہ جات آباد ہوں گے۔ اس طرح RBOD کا منصوبہ بھی کاغذوں میں موجود ہے۔ سیہون بیراج کا ڈیزائن بھی مکمل ہو چکا ہے اس سے زیریں سندھ کوفائدہ ہو گا‘ ان تمام منصوبوں کیلئے کالاباغ ڈیم سے پانی ملےگا ورنہ سندھ کے وسیع علاقوں کی آباد کاری تشنہ رہے گی اسکی وسیع بنجر زمینوں کی آبادکاری کیلئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے سندھ کو براہراست 30 ارب روپے سالانہ کے وسائل حاصل ہوں گے جبکہ سندھ کی مجموعی معیشت میں سالانہ اربوں ڈالر کا فائدہ ہو گا۔سندھی اپنے لیڈروں سے یہ سوال کریں کہ جب پانی کی کمی ہے تو اپنی کینال اور دیگر متذکرہ نہروں کیلئے پانی کہاں سے آئیگا جس سے تقریباً 20 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی۔یہی وجہ ہے کہ 1993 میں جب بے نظیر بھٹو دوبارہ برسراقتدار آئیں انکے سامنے کالا باغ ڈیم کے منصوبےکی افادیت سامنے لائی گئی تو انہوں نے اسکی مخالفت کرنے کی بجائے یہ کہا ”جو کالا باغڈیم کا مخالف ہے وہ پاکستان دشمن ہو گا“۔ انکے یہ الفاظ تمام سیاق و سباق کے ساتھ میرے گذشتہ آرٹیکل میں لکھے جا چکے ہیں چنانچہ انہوںنے اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے وزیر پانی، بجلی اور چیئرمین واپڈا کو سگنل دیئے۔ کئی So called این جی اوز اور مختلف ووٹروں سے آواز اٹھائی جاتی ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے سے وفاق کو ہرگز خطرہ نہیں بلکہاگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو سندھی اور پٹھان اپنے ان لیڈروں کو جوتے ماریں گے جو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے تھے۔ پھر ہر کوئی ان ملک دشمن لیڈروں کو پہچان لے گا جو اس دھرتی کے اصل دشمن ہیں اور جن کی ملک دشمنی میںانکی محبت اور خلوص کی دھرتی ترقی نہ کر سکی. 

بشکریہ محمد سلیمان خان،  کالم پیامِ زندگی 
ای میل: sindtaswatercouncil@gmail.com 

No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...