جب امریکی صدر اوباما نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع کے زیرِ انتظام نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کے ذریعے اپنی نئی ڈرون حملوں کی پالیسی اور امریکہ کیلئے اس قدر مہنگی اور بدنامی کا باعث گوانتاموبے کی جیل بند کرنے کے بارے میں قوم اور دنیا کو آگاہ کر رہے تھے تو سامعین میں موجود ایک امریکی خاتون نے تقریر کے آخری مراحل میں اختلاف اوراحتجاج کرتے ہوئے تقریر میں خلل ڈالا تو صدر اوباما نے انہیں کہا کہ وہ صدر کی تقریر ختم ہونے دیں
مگر وہ تھوڑی دیر بعد پھر کھڑی ہو کر صدر کو بطور کمانڈر انچیف یہ یاد دلانے لگ گئیں کہ صدر اگر چاہیں تو وہ گوانتاموبے کی فوجی جیل کو آج ہی ایک آرڈر کے تحت بند کر سکتے ہیں اسی طرح انہوں نے ڈرون حملوں کو بے گناہ شہریوں کے قتل کا غیر انسانی فعل قرار دیا اور اسے امریکہ کے لئے باعث شرم فعل کہا اور صدر سے ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔ جب تک ہال کے سیکورٹی حکام اس امریکی خاتون کو ہال سے نکالتے یہ خاتون تین مرتبہ صدر کی تقریر میں خلل ڈالنے کے علاوہ اپنا سخت موقف بھی دنیا کے سامنے پیش کرچکی تھی۔ (ملاحظہ ہو یوٹیوب اور صدارتی تقریر کا مکمل متن) بہت سے امریکی حلقوں اور ذرائع ابلاغ نے خاتون کے اس فعل کو ”بدتمیزی“ (RUDE) خاتون کو ہیکلر اور امریکی صدر کی توہین کی کوشش قرار دیا۔ مگر امریکی جمہوریت اور آزادی کا یہ پہلو بھی دیکھئے کہ اپنے اس فعل کے بعد اس امریکی خاتون نے عالمی اور امریکی میڈیا کو سیکڑوں انٹرویو دے ڈالے ہیں اور اپنے موقف پرقائم ہے جب کہ اسی خاتون کو پرویزمشرف کی حکومت پر نکتہ چینی کرنے پر آئی ایس آئی ، سادہ کپڑوں والی پاکستانی پولیس اور دیگر اداروں کے ہاتھوں پوچھ گچھ، حراست اور پاکستان سے ڈیپورٹ ہونے کا تجربہ بھی ہے۔
مگر وہ تھوڑی دیر بعد پھر کھڑی ہو کر صدر کو بطور کمانڈر انچیف یہ یاد دلانے لگ گئیں کہ صدر اگر چاہیں تو وہ گوانتاموبے کی فوجی جیل کو آج ہی ایک آرڈر کے تحت بند کر سکتے ہیں اسی طرح انہوں نے ڈرون حملوں کو بے گناہ شہریوں کے قتل کا غیر انسانی فعل قرار دیا اور اسے امریکہ کے لئے باعث شرم فعل کہا اور صدر سے ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔ جب تک ہال کے سیکورٹی حکام اس امریکی خاتون کو ہال سے نکالتے یہ خاتون تین مرتبہ صدر کی تقریر میں خلل ڈالنے کے علاوہ اپنا سخت موقف بھی دنیا کے سامنے پیش کرچکی تھی۔ (ملاحظہ ہو یوٹیوب اور صدارتی تقریر کا مکمل متن) بہت سے امریکی حلقوں اور ذرائع ابلاغ نے خاتون کے اس فعل کو ”بدتمیزی“ (RUDE) خاتون کو ہیکلر اور امریکی صدر کی توہین کی کوشش قرار دیا۔ مگر امریکی جمہوریت اور آزادی کا یہ پہلو بھی دیکھئے کہ اپنے اس فعل کے بعد اس امریکی خاتون نے عالمی اور امریکی میڈیا کو سیکڑوں انٹرویو دے ڈالے ہیں اور اپنے موقف پرقائم ہے جب کہ اسی خاتون کو پرویزمشرف کی حکومت پر نکتہ چینی کرنے پر آئی ایس آئی ، سادہ کپڑوں والی پاکستانی پولیس اور دیگر اداروں کے ہاتھوں پوچھ گچھ، حراست اور پاکستان سے ڈیپورٹ ہونے کا تجربہ بھی ہے۔
بہرحال یہ امریکی خاتون صدر اوباما کی اس اہم تقریر میں خلل ڈالنے، اختلاف کر کے اپنا موقف دہرانے پرہونے والی تنقید اور”بدتمیز“ کہے جانے پر ناراض نہیں بلکہ یہ کہہ رہی ہیں کہ اگر موقع ملا تو وہ پھر بھی یہی کچھ کہیں گی اور ایسی ہی ”بدتمیزی“ دوبارہ بھی کریں گی۔ اس واقعہ کے بعد مذکورہ خاتون میڈیہ بنجامن سے میری متعدد بار فون پر بات چیت ہوئی اور اگلے ہفتے بالمشافہ ملاقات بھی ہونے کا امکان ہے۔ خود کو ”ایک اچھی یہودی گرل“ کہنے والی یہ خاتون اب 60 سال کی ہے ۔ وہ امریکہ کی نامور کولمبیا یونیورسٹی سے اکنامکس کی ڈگری حاصل کر چکی ہے اور معیشت کی اونچ نیچ پر نظر بھی رکھتی ہے لہٰذا میڈیہ بنجامن کوئی غصہ ور جوشیلی، کوئی نعرہ باز، تقریروں میں خلل ڈالنے والی، جلسے الٹا دینے والی خاتون نہیں بلکہ ایک تعلیم یافتہ، بامقصد اورسوچ سمجھ رکھنے والی امریکی خاتون ہے جس کا کوئی فلسفہ حیات اور انسانی کاز ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا بنجامن سے اوباما انتظامیہ تو اس لئے ناراض ہے کہ میڈیہ نے صدر کی تقریر میں خلل ڈالا اور احتجاج کیا بعض حلقے اسے ”بدتمیز“ (RUDE) اس لئے کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کے ایجنڈے اور فلسفہ کے خلاف کام کرتی ہے مگر تعجب یہ ہے کہ اپنے اس احتجاج کے دوران میڈیہ بنجامن نے جن پر ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کر کے احتجاج کیا،جن کے حق میں احتجاج کی آواز بلند کی اور صدر اوباما سے ان مظلوموں سے معافی مانگنے کا اعلانیہ مطالبہ کیا انہیں اس احتجاج کی کوئی پروا تک نہیں۔ وہ خاموش، بے پروا بیٹھے ہیں اور ان کے حکمران تو یوں بھی دم سادھے بیٹھے ہیں کہ صدر اوباما ناراض نہ ہو جائیں۔ حقوق نسواں اور انسانی حقوق کیلئے قائم ”کوڈ پنک“ نامی مشہور امریکی تنظیم کی سربراہ سوزن میڈیا بنجامن سے صدر اوباما کی تقریر کے بعد متعدد بار رابطہ ہوا مگر اس کی حد درجہ مصروفیات کے باعث تفصیلی گفتگو ہونے میں چار روز لگ گئے۔ تفصیلی گفتگو میں میرے سوالات میڈیا بنجامن سے اتنے ہی دو ٹوک اور واضح تھے جتنا کھلا اور واضح احتجاج اس خاتون نے صدر اوباما کے سامنے کیا تھا۔ میں نے دو ٹوک انداز میں اس سے پوچھا کہ آپ ایک محب وطن امریکی اور مذہبی عقیدہ کے لحاظ سے خود کو ایک ”اچھی یہودی گرل“ بھی کہتی ہیں تو مسلمانوں کی حمایت میں اتنا احتجاج کیوں؟ اس کا جواب تھا کہ جب میری حکومت مجھ امریکی شہری کی حفاظت کے نام پر ریمورٹ کنٹرول سے ڈرون حملوں سے نہتے اور بے گناہ انسانوں کا قتل کررہی ہے تو مرنے والے انسان کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، وہ میرے لئے پہلے انسان ہیں اور ان کی بلاجواز موت پر بلا امتیاز میں احتجاج کر رہی ہوں۔ میرا یہودی بیک گراؤنڈ بھی مجھے یہی تعلیم دیتا ہے کہ کسی بھی انسان کی ناحق موت ایک غلط کام ہے۔ اسرائیل ، فلسطین تنازع کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ چھ بار غزہ کے فلسطینی علاقے میں جا کر اسرائیل کے ناجائز اقدامات اور فلسطینیوں کے ناجائز قتل او مظالم کے اسرائیلی اقدامات کے خلاف احتجاج کر چکی ہیں۔ وہ گوانتاموبے میں کئی برسوں سے امریکی قید میں رکھے جانے والے166 قیدیوں کی رہائی اور گوانتاموبے جیل بند کر نے کے حق میں ہیں کہ قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر ان انسانوں کو ایک طویل عرصہ قید میں ڈال کر مظالم کئے جا رہے ہیں اور وہ قیدی مسلسل بھوک ہڑتال پر ہیں اور انہیں زبردستی ٹیوب کے ذریعے خوراک دی جا رہی ہے۔ وہ خود کو ایک محب وطن امریکی بھی کہتی ہیں وہ تقریباً 20 منٹ تک میرے ہر دو ٹوک سوال کا جواب بڑے تحمل سے دیتی رہیں اور اپنے پاکستان کے دو مرتبہ دوروں کی بعض تفصیلات کی وضاحت بھی کی اور مجھ سے جلد بالمشافہ ملنے کا طے کر کے بات ختم کی۔
قارئین کرام!
اس ”بدتمیز“ امریکی محب وطن، پختہ نظریات کی حامی ایک عرصہ سے جدوجہد میں مصروف، اوباما کی پہلی انتخابی مہم میں بڑی سرگرمی سے حمایت اور مہم میں حصہ لینے والی ”ایک اچھی یہودی گرل“ میڈیہ بنجامن کے صدر اوباما کے سامنے احتجاج کا موضوع، مقصد اور اصول سمجھنے کے لئے چند اہم نکات پر توجہ دینا لازمی ہے اور پھر ان کی روشنی میں ہی آپ خود یہ فیصلہ فرمائیں کہ میڈیہ بنجامن ایک بدتمیز RUDE امریکی خاتون ہے یا ایک بہادر اور اصول پرست خاتون ہے؟
(1) وہ 2007ء دسمبر میں پرویز مشرف کے دور میں پاکستان آئی تو اسے پاکستانی ایجنسیوں (بقول میڈیا آئی ایس آئی) نے بندوق کی نوک پر حراست میں لیا، پوچھ گچھ کی اور پھر اسے پاکستان سے ڈی پورٹ کر دیا گیا اس کا واحد قصور ججوں کی بحالی،عدالتی برتری کے لئے وکلاء کی جدوجہد کی حمایت کے لئے پاکستان آکر چوہدری اعتزاز احسن کے ساتھ اس جدوجہد اور جلوس میں شرکت تھا اور مشرف کی آمریت کی مخالفت کرنا تھا۔
(2) وہ گزشتہ اکتوبر 2012ء میں عمران خان کے قبائلی علاقوں کی جانب مارچ میں شریک ہو چکی ہے اس کا مقصد ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج، ڈرون سے ہلاک ہونے والے بیگناہ سویلین کے لواحقین سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار مقصود تھا۔ بقول میڈیہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کی اس وارننگ کے باوجود وہ تحریک انصاف کے عمران خان کے قافلے کیساتھ اس علاقے میں گئیں کہ طالبان انہیں قتل کرسکتے ہیں کہ وہ امریکی ہیں۔
(3) ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر مذہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام سمیت ہر مذہب کا احترام کرتی ہیں اور انسانی زندگی کو انتہائی مقدس جانتی ہیں خواہ وہ کسی رنگ و نسل مذہب و ملت علاقے اور قومیت کا حامل ہو۔
(4) وہ اپنی تعلیمی صلاحیت اور مہارت کا استعمال کر کے کسی بڑی کمپنی میں بڑے بڑے عہدوں پر کام کر کے دولت کما کر امریکی انداز کی خوشحالی اور دولت مند انسان کی زندگی گزار سکتی تھیں لیکن اس نے انسانی حقوق اور انسانوں بالخصوص متاثرہ انسانوں اورحقوق نسواں کی خدمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ دو بیٹیاں پالنے ، خاندان اور شادی کے تقاضے بھی اسی کے ساتھ نبھائے ہیں اور وہ خوش اور مطمئن ہیں۔
اب ذرا اس حقیقت پر بھی نظر ڈالیں کہ آخر اس امریکی محب وطن اور ”گڈ یہودی گرل“ نے صدر اوباما کی تقریر کے دوران احتجاج کرتے ہوئے کیا کلمات ادا کئے کس کی حمایت کی؟ میڈیا بنجامن نے صدر اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ:
"آپ کمانڈر انچیف ہیں اور آپ گوانتاموبے کی فوجی جیل کو آج ہی بن دینے کا اختیار رکھتے ہیں تو آج ایسا حکم جاری کر دیں۔"
"انہوں نے ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والے بیگناہ نہتے سویلین ک ہلاکت پر ان کے لواحقین سے صدر اوباما نے معافی کیوں نہیں مانگی؟"
"انہوں نے پاکستان اور ان مرنے والے پاکستانی شہریوں کو بلاجواز ہلاک پر معاوضہ کیوں نہیں دیا؟"
"پاکستان کی آزادی و خود مختاری کی ڈرون طیاروں کے ذریعے پامالی کیوں کی ؟"
(اس کا مکمل عبارتی متن اوباما کی تقریر کے متن کے ساتھ جاری کیا گیا جو امریکی جمہوریت کا ایک مظہر ہے ) میڈیہ بنجامن کو ہال سے نکالے جانے کی ویڈیو بھی موجود ہے دوسرے الفاظ میں حقیقت یوں ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں بشمول پرویز مشرف نے خود جن افراد کو پکڑ کر امریکی حکومت کے حوالے کیا ان کے حقوق کے لئے ایک امریکی خاتون امریکی صدر سے احتجاج کر رہی ہے اور گوانتاموبے کو فوری بندکرنے کو کہہ رہی ہے۔ ڈرون حملوں کی اجازت اور منظوری پاکستان سمیت آپ کے حکمرانوں نے دی اور ان حملوں میں ہر طرح کا تعاون کیا اور یہ ”بدتمیز“ امریکی خاتون ان حملوں اوراس سے ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی موت پر اپنے ”بدتمیز“ انداز کے احتجاج کے ذریعے امریکی صدر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
کیا پروٹوکول، اعلیٰ اختیارات، القابات اور تمام تر مراعات کے حامل مسلم عوام پرحکمرانی کرنے والے کسی بھی آمر یا حکمراں میں اتنی سکت یا جرأت ہے کہ وہ یہ الفاظ امریکی صدر اوباما کے سامنے دہرانے کی جرأت کر سکے؟
قارئین آپ فیصلہ فرمائیں کہ یہ امریکی خاتون آپ کی نظر میں ”بدتمیز“ ہے یا ”بہادر“؟ قابل نفرت ہے یا قابل احترام؟ صہیونی ایجنٹ ہے یا انسان دوست؟ پاکستان سے ڈی پورٹ ہونے کے قابل ہے یا پاکستان میں مہمان نوازی کی مستحق؟ جابر حکمران کے سامنے کلمہٴ حق کہنے والی خاتون ہے یا میڈیہ بنجامن جیسے غیر اسلامی نام والی کافر خاتون؟
کالم: ”بدتمیز“ امریکن لیڈی ۔صدر اوباما اور مسلم حکمران؟...عظیم ایم میاں…نیویارک
بشکریہ: روزنامہ جنگ بروز 29 مئی 2013
I salute her !
ReplyDeleteAllah mujh ko b is behan jesi bahaduri ata kary dosroun ka tou nahi maloum.