تھانیدار صاحب! جمیل ملنگی کی طرف سے آہوں اور سسکیوں بھرا سلام قبول کیجئے۔جس کاغذ پر یہ درخواست لکھ رہا ہوں وہ ذرا گیلا ہورہاہے لیکن ذہن میں کوئی غلط خیال نہ لائیے گا‘ یہ میرے آنسو ہیں جو قطرہ قطرہ کاغذ پر گر رہے ہیں۔
تھانیدار صاحب! ایک عرصے سے مجھے خواب میں اشارے ہورہے تھے‘ ایک بابا جی ہر رات میرے خواب میں آکر کہتے تھے’’اُٹھ ملنگی! پاکستان کوتیری ضرورت ہے‘‘۔ پہلے تو مجھے کچھ سمجھ نہ آئی لیکن ایک ماہ پہلے بابا جی پھر خواب میں تشریف لائے‘ بڑے جلال میں لگ رہے تھے‘ آتے ہی انہوں نے مجھے ساڑھے تین گز لمبی چار گالیاں نکالیں اور کہنے لگے ’’بے غیرتا! تیری سمجھ میں ہماری بات کیوں نہیں آرہی۔۔۔اُٹھ اور الیکشن لڑ‘‘۔ میں بوکھلا گیا اور پوچھا کہ میں نے تو آج تک الیکشن نہیں لڑا‘ ویسے بھی کوئی پارٹی بھلا مجھے کیوں ٹکٹ دے گی؟؟؟‘‘ یہ سن کر بابا جی نے جیب سے سگریٹ نکال کر ایک لمبا سا کش لیا اور دھواں میرے منہ پر پھینک کر بولے’’ ڈفر آدمی!تجھے کسی پارٹی سے ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں‘ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ‘ تیری کامیابیوں کے چرچے ہیںآسمانوں میں‘‘۔ جناب یہ بات سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں الیکشن ضرور لڑوں گا۔ میں نے اپنی بیوی کو اپنا خواب سنایا تودانت پیس کر بولی’’الیکشن لڑنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟؟؟‘‘ میں یہ سن کر پریشان ہوگیا ‘ رات کوپھر بابا جی سے ملاقات ہوئی تو میں نے گزارش کی کہ مجھے کوئی تین چار لاکھ ہی ادھار پکڑدیں‘ یہ سنتے ہی بابا جی نے قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھا اور کڑک کر بولے‘ ہم بابا جی ہیں تیرے ماماجی نہیں۔۔۔پیسوں کی فکر چھوڑ‘ بس کاغذات نامزدگی جمع کروا ‘‘۔ میں نے صبح اٹھتے ہی ایم پی اے کی سیٹ کے لیے آزاد امیدوار کے طور پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا دیے۔ مجھے پوری امید تھی کہ میں 62، 63 میں رہ جاؤں گا ‘ ریٹرننگ آفیسر نے مجھ سے دعائے قنوت سنی‘ میں نے فر فر سنا دی‘ اس نے فوراً میرے کاغذات نامزدگی قبول کر لیے اور میں سمجھ گیا کہ ریٹرننگ آفیسر کو خود بھی دعائے قنوت نہیں آتی۔تھانیدار صاحب! پہلا ظلم مجھ پر یہ ہوا کہ مجھے انتخابی نشان ’’کھوتا‘‘ الاٹ ہوگیا۔میں نے بڑا احتجاج کیا لیکن مجھے کہا گیا کہ یہ نشان تو امریکہ کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کا بھی ہے لہٰذا اسے اپنا اعزاز سمجھو۔ جناب! میں نے مجبوراً یہ نشان قبول کیا اور اپنے پوسٹر ز چھپوا لیے جن پر بڑے بڑے حروف میں لکھوایا کہ ’’ملک سنوارنا ہے تو کھوتے پر مہر لگاؤ‘‘ نیچے میں نے ایک طرف کھوتے کی اور ایک طرف اپنی فوٹو لگا دی۔ عالی جاہ! میرا وہ توالگا کہ میں کیا بتاؤں‘ محلے کے من چلوں نے میرا جینا محال کر دیا‘کئی کمینے تو بڑی سنجیدگی سے پوچھنے لگے کہ ’’ملنگی صاحب ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن ذرا یہ بتا دیجئے کہ کس کھوتے پر مہر لگانی ہے؟؟؟‘‘ ایک بدبخت کھوتا سپیشلسٹ نے تومیرے پوسٹر دیکھ کر عجیب و غریب اعتراض کر دیا‘ کہنے لگا کہ جو تصویر آپ نے پوسٹرز میں دی ہے وہ کھوتے کی نہیں کھوتی کی ہے۔تھانیدار صاحب!میں اپنے حلقے میں اپنا انتخابی دفتر بنانا چاہتا تھا لیکن کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا‘ مصیبت کی اس گھڑی میں صرف انور کبابوں والا میرے کام آیا اور اس نے اپنی ریڑھی کے آگے میرا پوسٹر لگا کر میرے انتخابی دفتر کا افتتاح کیا۔میں نے اس کی حب الوطنی سے متاثر ہوکر اسے یقین دلایا کہ اگر میں کامیاب ہوگیا تو روزانہ اس سے بیس سیخیں کبابوں کی خریدا کروں گا۔جناب! میں نے بھی بڑی پارٹیوں کی طرح جلسے کرنے کی کوشش کی ‘ اس مقصد کے لیے میں نے اپنے ایک انقلابی شاعر دوست کو نعرے بنانے کا کام سونپا‘ اُس کمینے نے بڑی پارٹیوں کی نقل میں ایسا ایسا نعرہ ایجاد کیا کہ میری رہی سہی مٹی بھی پلید کرکے رکھ دی‘ کم بخت نے ایک کارنر میٹنگ میں نعرہ لگوا دیا کہ ’’دیکھو دیکھو کون آیا۔۔۔کھوتا آیا کھوتا آیا۔۔۔‘‘یہ سنتے ہی لوگوں کا جوش و خروش بڑھ گیا اور انہوں نے نعرے کی پہلی لائن بھول کر دوسری لائن بولنا شروع کردی ’’کھوتا آیا۔۔۔کھوتا آیا‘‘۔میں نے اپنے دوست کی ڈیڑھ سو روپے کی ادائیگی فوراً روک دی اور حکم دیا کہ پہلے کوئی ایسا نعرہ بناؤ کہ لوگ پہلے والے نعرے کو بھول جائیں۔ اُس دشمن نما دوست نے اگلے ہی دن ایک اور سرپرائز دے دیا‘ میں ایک دکان کے تھڑے پر کھڑا لوگوں کوووٹ کے لیے قائل کر رہا تھا کہ ایک زوردارآواز گونجی ’’تبدیلی کا ایک نشان۔۔۔کھوتا بھائی جان کھوتا بھائی جان‘‘۔میرے پیروں تلے زمین نکل گئی‘ میں نے تھڑے پر کھڑے کھڑے اُس کی گردن دبوچ لی۔۔۔لیکن اب کیا ہوسکتا تھا‘ نعرہ تو نکل چکا تھا۔ ساری پبلک نے پرجوش آواز میں ’’کھوتا بھائی جان‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ ایک منحوس شکل شخص تو میرے قریب آکر بولا’’کھوتا بھائی جان!آپ کاانتخابی نشان کیا ہے؟؟؟‘‘۔۔۔میں نے فوری طور پر الیکشن سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔رات کو پھر بابا جی خواب میں آئے تو میں نے انہیں دیکھتے ہی جوتی اُتار لی۔ وہ گھبراکر بولے’’ملنگی!پہلے میری بات تو سن لو۔۔۔اب اپنے مخالف امیدوار کے حق میں لمبے چوڑے پیسے لے کر بیٹھ جاؤ‘‘۔میں یکدم چونک گیا اور مجھے بابا جی کا سارا پلان سمجھ آگیا۔ میں نے فرط جذبات سے مغلوب ہوکر بابا جی کی پیشانی پر بھرپور بوسہ دیا اور زمین پر تھوک دیا۔
تھانیدار صاحب! اگلے دن میں نے اپنے مخالف امیدوار’ ’ٹونی فرنگی‘‘ سے رابطہ کیا اور آفر کی کہ اگر میں تمہارے حق میں دستبردار ہوجاؤں تو کیا مجھے تین لاکھ روپے دو گے؟؟؟ اُس نے کچھ دیر میری بات پر غور کیا ‘ پھر بولا ’’تین نہیں پانچ لاکھ دوں گا‘ لیکن پہلے تمہیں بھرے مجمع میں اعلان کرنا ہوگا اور میرے کہے ہوئے الفاظ بولنے ہوں گے‘‘۔ میری باچھیں کھل گئیں اور میں نے جھٹ سے ہامی بھر لی۔ جناب اگلے دن اس نے مجھے اپنے جلسے میں بلایا اور وہی کچھ بولنے کے لیے کہا جو اس نے مجھے سمجھایا تھا۔ میں نے پورے دل کے ساتھ مائیک پر آتے ہوئے کہا کہ ’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ ٹونی بھنگی۔۔۔مم۔۔۔میرا مطلب ہے ٹونی فرنگی ہی آپ کے ووٹ کا صحیح حقدار ہے‘ میرے جیسا گھٹیا انسان اس سیٹ کا بالکل بھی اہل نہیں لہٰذا میں اپنے اور اپنے ساتھیوں سمیت بغیر کسی لالچ کے ‘ٹونی فرنگی کی حمایت کا اعلان کرتاہوں ‘‘۔یہ سنتے ہی مجمع میں نعرے لگنے شروع ہوگئے’’کھوتا رہ گیا میدان میں۔۔۔ہے جمالو‘‘۔ مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن معاملہ پانچ لاکھ کا تھا لہٰذا خاموشی اختیار کی۔۔۔اس خاموشی کے مجھے دو فائدے ہوئے‘ ایک تو ٹونی فرنگی بہت خوش ہوا‘ دوسرے اسی بہانے میری غیرت بھی مر گئی۔۔۔لیکن! تھانیدار صاحب۔۔۔اب جبکہ میں کاغذات نامزدگی واپس لے چکا ہوں‘ ٹونی فرنگی مجھے پیسے دینے سے انکاری ہوگیا ہے‘ میں اس کے گھر کے سینکڑوں چکر لگا چکا ہوں‘ ہر بار وہ مجھے دیکھتے ہی مسکراتاہے اور منہ چڑاتا ہوا اندر چلا جاتاہے۔جناب! میں دھوکے میں مارا گیا ہوں‘ بیٹھے بٹھائے ڈیڑھ دو سو کلو ذلت اپنے سر لے لی ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید میں ٹونی فرنگی کے خلاف درخواست دینے آیا ہوں۔۔۔نہیں جناب! ٹونی فرنگی کا اس میں کیا قصور۔۔۔میں تو اپنے خواب والے بدبخت بابا جی کے خلاف درخواست دینے آیا ہوں‘ براہ کرم اِس بابے کو تھانے لا کر ایسے چھتر لگائیں کہ بابا تین چار ہفتے تک ہر کام کھڑا ہوکر کرے۔مجھے پتا چلا ہے کہ یہ بابا شیخ رشید کے خوابوں میں بھی آتا رہا ہے‘ براہ کرم شیخ رشید سے اس کا ایڈریس لے لیں۔(فقط۔۔۔جمیل ملنگی المعروف کھوتے والی سرکار!!!)
No comments :
Post a Comment