Saturday, May 18, 2013

محترمہ خوش بخت شجاعت کے بارے میں ابو نثر صاحب کی یادیں


ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ محترمہ خوش بخت شجاعت صاحبہ ہمارے لڑکپن کی خوبصورت یادوں میں سے ایک ہیں۔ اُن کے بارے میں لکھا گیا میرا گذشتہ مضمون کافی پڑھا گیا۔ جس کے لیے ہم اپنے قارئین کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ابو نثر صاحب ،جو نئی دنیا میں باقاعدہ کالم لکھتے ہیں اور ہمارے پسندیدہ لکھاریوں میں سے ایک ہیں، نےبھی اپنے تازہ کالم میں خوش بخت صاحبہ کا ذکر کیا ہے۔ اُن کے لکھے ہوئے مضمون کو خاص طور پر بھی شئیر کیا جا رہا ہے ، جس کے لیے ہم اُن کے ممنون ہیں۔
 اللہ اُن کو مذید خوبصورت لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اِسی طرح لُطف اندوز ہوتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔



   کوئی دیکھے تو چراغوں کا فروزاں ہونا - ابو نثر کے قلم سے


خوش بخت کو ایک مدتِ مدید کے بعد ٹیلی وژن پر دیکھنا ہماری خوش بختی نہیں تو کیا کم بختی ہے؟ کم بختی تو ان کم بخت انتخابات کی آئی ہوئی ہے جو کسی کا بخت بلند کرگئے اور کسی کا پست۔کسی کو راج سنگھاسن پر بٹھا گئے اور کسی کے تخت کا تختہ۔۔۔ بلکہ دھڑن تختہ۔۔۔ کرگئے۔ کچھ حسرت زدہ غنچے ایسے بھی تھے جو بِن کھلے مرجھا گئے۔ (ہمارا اِشارہ حاشا و کلّا ابرارالحق کی طرف نہیں)۔کچھ دلوں کے غنچے زندگی میں پہلی بار کھل اُٹھے۔ (یہاں البتہ ہمارا اِشارہ نئے نویلے بلّے بازوں کی طرف ہے)۔کیا کیجیے کہ گلشن میں ہوا ہی کچھ ایسی چل پڑی تھی۔ بقولِ شاعر: ’’یہ وقت ہے شگفتنِ گُل ہائے ناز کا‘‘۔جشن مناتے نوجوانوں کو آپ دیکھتے تو نظرآجاتاکہ ناز و انداز کے کیسے کیسے گُل کھِل رہے ہیں۔ مگر خوش بخت کی بات اورتھی۔ وہ تواِن کم بخت انتخابات کی ستائی ہوئی تھیں۔ وہ توفقط یہ سناؤنی سنانے کو آئی ہوئی تھیں کہ این اے 250پر ہونے والے واقعات کا رنج ہمیں بھی بہت ہے۔اور غالباً اپنی آزاد مرضی و رضامندی ہی سے دُنیاکو یہ بھی بتانے آئی تھیں کہ :
تمہی شعلہ زباں، شعلہ دہن ہو، ایسا مت سمجھو
زباں کھولیں تو کم آتش کے پرکالے نہیں ہیں ہم
مگرخوش بخت کی شعلہ بیانی کے قائل وگھائل تو اُن کے بے شمار سامعین و ناظرین پہلے ہی سے ہیں۔اور اِک عمر سے ہیں۔گوکہ ابھی خوش بخت کی عمر ہی کیا ہے، مگر ہم تو اُنہیں اُس عمر سے جانتے ہیں جب وہ ابھی ’خوش بخت شجاعت‘ نہیں بنی تھیں۔ تب وہ ’خوش بخت عالیہ‘ ہوا کرتی تھیں۔بلبلِ میدانِ خطابت ۔ علمی و ادبی مباحثوں میں اُن کی چہکار گونجتی تو پنڈال پر سناٹا چھا جاتا۔(وہ دُنیا بھی عجب دُنیا تھی، تُم کو یاد تو ہوگی)۔پاکستان ٹیلی وژن پرآئیں تومُسکرا مُسکرا کرا یک مصرع گنگناتی ہوئی آئیں: ’’کوئی دیکھے تو چراغوں کا فروزاں ہونا‘‘۔علم، ادب، تمیز، تہذیب، صلاحیت، قابلیت اور کارکردگی کے نہ جانے کتنے چراغ خوش بخت نے اپنی خوش کلامی سے متعارف کرادیے۔ مگر اب شاید وقت ایسا آن لگا ہے کہ ’’کسی‘‘ کو چراغوں کا فروزاں ہونا سخت ناپسندہوگیا ہے۔ چراغوں کا فَسردہ ہوہوکربجھ جانا ہی پسند آگیا ہے۔ سو،اُس چراغ دُشمن کی ہوا چلی تو خوش بخت کے فروزاں کیے ہوئے چراغ بجھنا شروع ہوگئے۔ لوگ اب تک سہمے ہوئے ہیں: ’’کتنے چراغ بجھائے دیکھو یہ ظالم بے درد ہوا‘‘۔اُس روز خوش بخت کو ایک مدتِ مدید کے بعد ٹیلی وژن پر دیکھا توایسا محسوس ہوا جیسے خوش بخت خود بھی بجھ سی گئی ہوں۔ خوش بخت کو اُس در پر دیکھو تو دُکھ ہوتا ہے۔ مگر اُن کی وضع داری دیکھیے کہ نانی امّاں کی عمر کی ہوئی جاتی ہیں، پر حفظِ مراتب کا لحاظ ایسا ہے کہ عزیزم الطاف سلّمہٗ کو بڑے ادب سے’ الطاف حسین بھائی‘ کہہ کر پکارتی ہیں۔اسے کہتے ہیں مشرقی تہذیب۔
اُنہیں کیسے معلوم ہوا؟
’مشرقی تہذیب‘ کے ذکر پر ایک مزے کا قصہ یاد آگیا۔(یادش بخیر)۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب جامعہ کراچی سچ مچ علم و فن کا گہوارہ تھی۔لسانی سر پھٹول کااکھاڑا اورنوفروزاں چراغوں کا مقتل نہیں بنادی گئی تھی۔کیسے کیسے نادرِ روزگار اساتذہ تھے اور اُن کے کیسے کیسے شاہکار شاگرد ۔ انہی میں ظہورالحسن بھوپالی شہید بھی تھے۔(انہیں ضیاء الحق کے دور میں ’الذوالفقار‘کے دہشت گردوں نے شہید کیاتھا)۔ برادرِ بزرگ دوست محمد فیضی بھی تھے۔اور خواہر خوش گفتار خوش بخت عالیہ بھی۔مباحثوں میں چونچیں لڑائی جاتی تھیں اور چہلیں کی جاتی تھیں۔ کوئی کسی کی بات کا بُرا مانتا تھا نہ بندوق تان کر کھڑا ہوجاتاتھا۔ ظہور الحسن بھوپالی یوں تو کوتاہ قد تھے، مگر فن تقریر میں انتہائی بلند قامت۔ اُن کے چھوٹے قد کواکثر تند و تیز فقروں کی سان پر دھر لیا جاتا تھا۔خوش بخت بھی اُس زمانے میں کچھ ایسی ہی تند و تیز تھیں۔ ایک مباحثے میں بھوپالی صاحب قائد ایوان تھے۔ خوش بخت حزبِ مخالف سے آئیں تو جاتے جاتے اُن پر ایک فقرہ اُچھال گئیں: ’’جنابِ صدر ! قائد ایوان کے منہ سے تو ابھی دودھ کی بُو آتی ہے‘‘۔طویل القامت خوش بخت کی یہ چوٹ بھوپالی صاحب کی بچوں جیسی قامت پر تھی۔ خوش بخت کی ’شامتِ اقوال‘ کہ اُن کے فوراً بعد موضوع کی موافقت میں بولنے کے لیے دوست محمد فیضی بُلالیے گئے۔(یہ وہی فیضی صاحب ہیں جو صوبہ سندھ کے وزیراطلاعات ونشریات بھی رہ چکے ہیں)۔فیضی نے اپنے مخصوص شوخ انداز میں بڑی سنجیدگی سے کہا: ’’جنابِ صدر! مجھے تسلیم کہ قائد ایوان کے منہ سے دودھ کی بو آتی ہے۔مگر میں آپ کے توسط سے فاضل مقررہ سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ اُنہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ اور فاضل مقررہ تھیں کہ شرم سے رُخسار لال کیے اپنے لال دوپٹے(ململ کے)میں سمائی جاتی تھیں۔ اسے کہتے ہیں مشرقی تہذیب۔
سیاست بڑی شعبدہ باز ہے
سیاست میں سچ نہیں چلتا۔ ابھی سامنے کی بات ہے کہ ایک بات آپ واضح طورپر اپنے کانوں سے سنتے ہیں۔آپ ہی نہیں، ہزاروں کا مجمع سنتا ہے۔ ہزاروں کا مجمع ہی نہیں اب تو ٹیلی وژن چینلوں کے ذریعہ سے لاکھوں ناظرین براہِ راست سنتے ہیں۔ایک شخص جس وقت لندن میں اپنے منہ سے بول رہا ہے، عین اُسی وقت سات سمندر پار پاکستان میں لکھوکھا افراداُس کی بات اپنے کان سے سن رہے ہیں۔ سائنس نے بھی کتنی ترقی کر لی ہے۔مگر سائنس ہی نے نہیں، جھوٹ نے بھی ترقی کرلی ہے۔اب جھوٹ کو ’’سیاست‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ کسی اور کے کہے کو آپ جھٹلا سکتے ہیں۔ مگر اپنے کانوں کے سنے کو کیسے جھٹلائیں گے؟ایک آدمی سے، چلیے مان لیجیے کہ، سننے میں غلطی ہوسکتی ہے۔مگر کیا لاکھوں سامعین کے کان بھی بیک وقت بج سکتے ہیں؟بات جب
منہ سے نکل جائے۔ سی ڈی پر نقش ہوجائے۔ اخبارات میں چھپ جائے۔تب مدہوش کو ہوش آئے اور وہ معذرت کرنے کی بجائے صاف مُکر جائے کہ میں نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں۔سی ڈی نکال کر سن لو۔اگرایسی حرکت آپ کا بیٹاکرے تو آپ مارے غصے کے مار مارکر اُس کاحلیہ بگاڑ دیں۔ آپ کاملازم کہے تو اُسے کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیں۔کسی اور سیاسی جماعت کا سرپنچ یہ حرکت کرے تو تمام چینل ہفتے کے سات دن اوردن رات کے چوبیس گھنٹے بس اسی بات کاباجا بجاتے رہیں۔مگر یہ آخر کیسی مجبوری و معذوری ہے کہ خوش بخت جیسی خوش خصال کو بھی سچ کہنے کی بجائے جھوٹ کی تاویلیں ہی کرنی پڑیں گی۔اپنی مشرقی تہذیب کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا۔ اپنی تمام تر وضع داری کے ساتھ، حفظ مراتب کو مکمل طور پر ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اورپورے ادب و احترام سے بھی وہ اتنا کہنے کی جرأت نہیں کرسکتیں کہ: ’’قائد محترم! آپ کے منہ سے جھوٹ (وغیرہ)کی بدبو آتی ہے‘‘۔بات یہ ہے کہ مادر علمی کی ساری تربیت دھری کی دھری رہ گئی۔’’سڑکوں پہ آکے بجھ گئے سارے کتاب کے دیے‘‘۔ اس سیاست نے یہی تربیت دی ہے کہ: ’’ ایوان کے اِس جانب سے بولتے ہوئے ہمارا مؤقف یہ ہوتاہے‘‘۔۔۔اور۔۔۔’’ ایوان کے اُس جانب سے بولتے ہوئے ہمارا مؤقف وہ ہوتاہے‘‘۔۔۔سچ کسی جانب نہیں ہوتا۔ اِس جانب ہوتا ہے، نہ اُس جانب ہوتاہے



No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...