اسرائیلی صحافی ڈینئل رونی نے تو بیچ بازار بھانڈا پھوڑ دیا۔اسرائیلی چینل 2کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ مصری فوج کے سربراہ جنرل سیسی نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو انقلاب سے تین روزپہلے بتا دیا تھا کہ وہ منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے والے ہیں۔ ڈینئل کے بقول: ”جنرل سیسی کو خدشہ تھا کہ صدر مرسی کے خلاف انقلاب لانے پر غزہ سے فلسطینی مجاہدین صدر مرسی کی مدد کے لئے مصر میں نہ داخل ہوجائیں۔ نیتن یاہو نے نہ صرف یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ اس جانب سے تسلی رکھیں بلکہ یہ بھی کہا کہ مرسی حکومت کا خاتمہ ہمارے امن و سلامتی کا اہم تقاضا بھی ہے البتہ بدلے میں تقاضا کیا کہ انقلاب لانے کے بعد وہ غزہ کو سپلائی فراہم کرنے کے لئے فلسطینیوں کی بنائی ہوئی سرنگیں تباہ کردیں گے۔“ اور پھر جنرل سیسی اور نیتن یاہو دونوں نے اپنااپنا وعدہ پوراکردیا۔ نیتن یاہو نے انقلاب کی حفاظت کی اورسیسی نے اقتدار سنبھالنے کے چند روز بعد سرنگیں تباہ کردیں۔
گویا جنرل سیسی کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے منتخب صدر کا تختہ اس لئے الٹا کہ 30جون کو میدان التحریر میں لاکھوں عوام نے جمع ہو کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کردیا تھا، اپنی بنیاد میں سراسر جھوٹ تھا۔ ویسے تو اگر اسرائیلی صحافی یہ راز نہ بھی فاش کرتا تب بھی ساری دنیا کو معلوم تھا کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے چند مظاہروں کو وجہ جواز بنانا ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کچھ نہیں، لیکن ”گھر“ کے بھیدی نے لنکا ہی ڈھا دی۔ اسرائیلی حکومت نے اس فوجی انقلاب کو نہ صرف اپنی آشیرباد سے نوازا بلکہ اسے عالمی برادری کی تائید دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قوانین و ضوابط کے مطابق امریکی صدر کو منتخب حکومت کے خلاف فوجی انقلاب برپا ہونے پر مصر کی امداد بند کردینا چاہئے تھی۔ اسرائیلی انتظامیہ نے اپنے سرپرست اعلیٰ کو واضح ”ہدایات“ دیتے ہوئے کہا کہ مصر کی مالی امداد نہ روکی جائے۔ امریکہ نے مصر میں فوجی ڈاکہ زنی کو انقلاب ہی تسلیم نہیں کیا۔سیسی انقلاب کے بعد الاخوان المسلمون کے بعض ذمہ داران نے دوران ملاقات بتایا کہ کچھ عرصے سے قاہرہ میں امریکی سفیر اور مختلف یورپی ذمہ داران، اخوان کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ صدر محمد مرسی وزیراعظم ہشام قندیل کو ہٹا کر محمد البرادی کو وزیراعظم متعین کردیں۔ اس استفسار پر کہ آپ نے کیا جواب دیا؟ کہنے لگے: ”ہم نے تو اصولی جواب دیا کہ یہ فیصلہ ہم نے نہیں صدر مملکت نے کرنا ہے“ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ وزیراعظم ہشام قندیل کا اخوان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ صدر حسنی مبارک کے بعد برسراقتدار فوجی کونسل کی کابینہ کے ایک وزیر تھے۔ اخوان نے انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کرلینے کے باوجود، قومی یکجہتی کی خاطر نسبتاً اچھی شہرت رکھنے والے انہی کو وزیراعظم بنا دیا۔ نہ صرف وزارت ِعظمیٰ بلکہ وزارت ِ خارجہ، داخلہ، دفاع، خزانہ سمیت دو تہائی سے زائد وزارتیں ، اخوان سے باہر کے افراد کو دیں۔ اس کے باوجود پوری دنیا میں واویلا مچایا گیاکہ صدر محمد مرسی ملک میں اخوانائزیشن کر رہے ہیں، تمام اختیارات سمیٹ لئے ہیں ایک جماعت کے صدر بن کر رہ گئے ہیں۔
بات ہو رہی تھی البرادی کو وزیراعظم بنانے کے لئے مغربی دباؤ کی۔ صدر محمد مرسی نے تو ان کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا لیکن جنرل سیسی کے اعلان انقلاب کی تقریب میں جن تین افراد کو تائیدی خطبوں کیلئے چنا گیا، ان میں سے ایک یہی ”البرادی“ تھے۔ البرادی کا نام پھر وزارت ِ عظمیٰ کے لئے بھی پیش کیا گیا۔ لیکن اس بار خود صدر محمد مرسی کے مخالفین نے بھی اس کی مخالفت کردی۔ بالآخر انہیں نائب صدر برائے تعلقات ِ خارجہ بنا کر ایوانِ اقتدار میں داخل کر دیاگیا۔ نئی کابینہ کے 34وزار میں سے 11 حسنی مبارک دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
عالم اسلام میں البرادی کا ایک تعارف تو عراق اور ایران سمیت کئی ملکوں کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ان کے بھیانک کردار کے تناظر میں ہے۔ خود مصریوں کی ایک کثیر تعداد انہیں لاکھوں عراقی عوام کے قتل میں برابر کا شریک سمجھتی ہے۔ خود امریکی وزیردفاع نے بھی تسلیم کیا تھا کہ عراق کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں پیش کی جانے والی رپورٹیں بے بنیاد اور خودساختہ تھیں لیکن ان کادوسرا تعارف مصر کے اس ایک سالہ جمہوری دور میں سامنے آیا۔ انہوں نے حسنی مبارک سے نجات کے بعد مسلسل خود کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کیا۔ حسب سابق عالمی طاقتوں کی سرپرستی اور ذرائع ابلاغ کی مدد بھی حاصل تھی لیکن کسی بھی مرحلے پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ انہیں جب ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کا سربراہ بنایا جارہاتھا تو خود حسنی مبارک انتظامیہ نے البرادی کی مخالفت کی تھی لیکن امریکہ کی مخصوص لابی نے انہیں بالجبر منتخب کروا دیا۔
دو سال کے عرصے میں قومی اسمبلی ، سینٹ اور صدر کے انتخاب کے لئے دو دو بار پولنگ بوتھ پر جانے کے علاوہ عبوری و مستقل دستور پر ریفرنڈم کے لئے مصری قوم مجموعی طور پر آٹھ مرتبہ ووٹ ڈال چکی ہے۔ ہر دفعہ البرادی اور عمرو موسیٰ جیسی حسنی مبارک کی باقیات ایک طرف تھیں اور اخوان، متعدد دینی و سیاسی جماعتیں دوسری طرف۔ ہر بار البرادی گروپ کو شکست فاش ہوئی۔ اخوان کی وسیع الظرفی تھی کہ انہوں نے عمرو موسیٰ سمیت متعدد شخصیات کو خود اپنے ارکان اسمبلی کے ووٹوں سے دستورساز اسمبلی کا رکن منتخب کیا تاکہ دستور پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔ ان تمام ارکان نے دستورسازی کے آخر تک اجلاسوں میں شرکت کی۔ اس کے پورے پورے الاؤنسز سمیٹے اور پھر اچانک بائیکاٹ کااعلان کرتے ہوئے دستوری مسودے کی مخالفت شروع کردی۔ انہی دنوں البرادی سے ان کے دورہ ٴ جرمنی کے موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا آپ مصر کے پہلے جمہوری دستور کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
البرادی کا جواب تھا: ”اس کامسودہ بنیاد پرستوں نے تیارکیا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ”ہولوکوسٹ“ کے انکاری ہیں۔“پہلے برطانوی استعمار اور بادشاہت اور پھر 1952 میں جنرل نجیب کے انقلاب کے بعد سے لے کر فروری 2011 تک مصر مسلسل 63 سال کے فوجی اقتدار کے نرغے میں رہا۔ پہلی منتخب جمہوریت حکومت کو صرف ایک سال بعد ایک بار پھر فوجی جنرل نے چلتا کیا تو خود اسرائیلی صحافتی ذرائع خبریں دے رہے ہیں کہ البرادی اس فوجی انقلاب سے پہلے بھی نیتن یاہو سے ملے اور بعد میں بھی۔ اسرائیلی حکومت اپنا پورااثر و نفوذ اس انقلاب کی حمایت و کامیابی کے لئے صرف کر رہی ہے لیکن مصری عوام نے جس بھرپور انداز سے اس انقلاب کو مسترد کردیاہے اس سے مغرب اوراسرائیل میں ایک اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 23جون کی شام اسرائیل قومی ریڈیو سے انٹرویو میں اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے اپنی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ”فوجی انقلاب کی ضرورت سے زیادہ حمایت کرکے اسرائیلی مفادات کو خطرات سے دوچار کر دیاہے۔ مصر کافوجی انقلاب ناکام ہوتا دکھائی دے رہاہے اور اخوان دوبارہ برسراقتدار آ کر ہمارے خلاف مزید سخت موقف اختیارکرسکتے ہیں۔“
فوجی انقلاب کی ناکامی اور اخوا ن کی واپسی کا امکان ”انڈی پینڈنٹ“ اور ”واشنگٹن پوسٹ“ کے علاوہ کئی مغربی ذرائع بھی ظاہر کرچکے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ایک ماہ سے جاری بھرپور دھرنا اور ملک کے طول و عرض میں روزانہ نکلنے والے لاکھوں عوام کے مظاہرے ہیں۔ 30جون کو میدان التحریر میں ہونے والے مظاہرے اور اسے فوجی انقلاب کا سبب بتانے والے عالمی ذرائع ابلاغ نے اس سے کئی گنا بڑے حالیہ دھرنوں اور مظاہروں کو مکمل طور پر نظرانداز کیاہے۔ خبر دی بھی ہے تو صدر محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کی جھڑپوں کی دی ہے حالانکہ 26 مئی سے دن رات مسلسل جاری ان بھرپور دھرنوں اور مظاہروں کااصل طرہ ٴ امتیاز ہی ان کاپرامن ہونا ہے۔ میدان التحریر سے چند کلومیٹر دور حضرت رابعہ بصری سے منسوب میدان میں جمع یہ لاکھوں مرد و خواتین چلچلاتی دھوپ کے سحر و افطار بھی سڑکوں پر کر رہے ہیں۔ ان کے دن رات تلاوت، نمازوں، تراویح، تہجد اور دعاؤں میں گزر رہے ہیں۔
ایک ایک دو دو روز کے وقفے سے مزید ملین مارچ ان سے آن ملتے ہیں توپورا دارالحکومت مظاہرین سے بھر جاتا ہے۔ جنرل سیسی نے ان سے جان چھڑانے کے لئے ان پر مسلسل حملے اورفائرنگ بھی کروا کے دیکھ لی۔ صرف 6 جولائی کی صبح عین نماز فجر کے دوران فائرنگ سے ایک سو دس افراد شہید اور ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ ایک ماہ میں شہدا کی تعداد تقریباً اڑھائی سو ہوچکی ہے لیکن اخوان اور ان کی اتحادی جماعتوں نے اپنی تحریک کو مکمل پرامن رکھنے کااعلان کیا ہواہے۔ اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع نے اپنے اکلوتے خطاب میں تاریخی جملہ کہا تھا ”سلمیتنا اقوی من رصاصکم“ (ہماری پرامن تحریک تمہاری گولیوں سے زیادہ طاقتور ہے) اڑھائی سو شہدا اور ہزاروں زخمی ہوجانے کے باوجود اس پرامن تحریک میں کوئی کمی یا کمزوری واقع نہیں ہوئی۔ ہر آنے والے دن عوام کی تعداد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اس لئے اب اسرائیلی صدر اور مغربی تجزیہ نگار نوشتہ ٴ دیوار پڑھ رہے ہیں کہ عوامی انقلاب دوبارہ کامیاب اور فوجی ڈاکہ زنی ناکام ہوگی۔ جنرل سیسی نے انتہائی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اب ایک اور حماقت کا ارتکاب کیا ہے۔ 24جولائی کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عوام کو سڑکوں پر نکل آنے اور دہشت گردوں کا صفایا کردینے کے لئے فوج پر اظہار اعتمادکرنے کی کال دی ہے۔ اس بیان نے کئی حقائق بے نقاب کردیئے ہیں۔ ایک تو ثابت ہو گیا کہ 30جون کا مظاہرہ بھی انہی موصوف کی کارستانی تھی کہ جسے بنیاد بنا کر منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کردیا گیا۔ دوسرا سنگین ترین پہلو یہ ہے کہ یہ جنرل یا تو عوام کو عوام سے لڑا کر ملک میں خانہ جنگی کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں یا ایک بار پھر عوامی مظاہرے کانام لے کر لاکھوں عوام کے خلاف خود قتل و غارت کرانا چاہتے ہیں۔ ہر دوصورتوں میں سرزمین نیل پر فرعونی عہد کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔ ”فَھَلْ مِنْ مُدَّکِرْ“ (ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا)
جناب عبدالغفار عزیز جماعتِ اسلامی پاکستان کے ڈائریکٹر امورِ خارجہ ہیں۔ ان سے آپ یہاں مل سکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ مورخہ 29 جولائی 2013 بروز پیر
No comments :
Post a Comment