ملالہ یوسف زئی کے بارے میں پاکستان بٹا ہوا تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے وہ امریکہ کی ایجنٹ ہے (شاید بے خبر ایجنٹ، اس کے اصل سودا کا رتو کچھ اور لوگ تھے جن کا چیف سیلز مین ملالہ کا ’’روشن ضمیر‘‘ باپ ہے) اور کچھ لوگ کہتے تھے وہ دہشت گردی کے خلاف بہادری کی علامت تھی جو بچیوں کی تعلیم کے لئے لڑتی ہوئی گولی کا نشانہ بنا دی گئی۔ امریکہ اور برطانیہ کی مہربانی سے پاکستانیوں کی الجھن دور ہوگئی اور ملالہ کی بھی مہربانی (اصل میں ان کی مہربانی جنہوں نے اُسے تقریر لکھ کر دی) جس نے اقوام متحدہ میں تقریر کرکے خود کو بے نقاب کر دیا۔اور اپنے آقاؤں کی نشاندہی بھی کر دی۔
تعلیم کے لئے لڑائی کی تو بات کبھی تھی نہیں۔ جھوٹ کا ایک طوفان تھا۔ ملالہ نے ویب سائٹ پر طالبان کے خلاف ریمارکس دیئے۔ یہی ریمارکس حملے کی وجہ بنے۔ طالبان نے ان ریمارکس پر مشتعل ہو کر بڑی غلطی کی۔ کسی لڑکی کو اس کی کسی بھی تحریر پر حملے کا نشانہ بنانا غیر اسلامی اور ناقابل قبول ہے۔ لیکن یہ تو جو ہوا سوہوا، اس کے بعد ملالہ کو پاکستان کی رسوائی کے لئے جس طرح استعمال کیا گیا، کچھ پاکستانی اسے سمجھ ہی نہیں سکے۔ ملالہ نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں کہا، تعلیم ہر بچے کا حق ہے۔ اس نے اپنی تقریر میں عراق کے ان دس لاکھ بچوں کا ذکر نہیں کیا جنہیں اس کے آقاؤں امریکہ اور برطانیہ نے تعلیم ہی نہیں، زندگی کے حق سے بھی محروم کر دیا اور بموں کی بارش کرکے انہیں زندہ جلا دیا۔ افغانستان کے کتنے لاکھ بچے یا تو امریکی بمباری سے مارے گئے یا اتنی بری طرح زخمی ہوئے کہ ان کے کئی اعضا کٹ گئے، اب وہ تعلیم تو کیا حاصل کریں گے، بھیک مانگ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن ملالہ کے نزدیک یہ لاکھوں بچے بھی اس قابل نہیں تھے کہ انہیں تعلیم کا حق ملتا بلکہ شاید تو زندہ رہنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ بش اور اوباما کو اپناآئیڈیل کہنے والی اور آنحضرت ؐ کا توہین آمیز انداز میں ذکر کرنے والی ملالہ اور اس کے سیلز مین برطانیہ اور امریکہ کی سرپرستی میں آکر خود ہی بے نقاب اور بے حجاب ہوگئے۔ ملالہ کا بہت شکریہ۔ اب اسے نوبل انعام ملے ،امریکہ اس کا مجسمہ مین ہیٹن میں گاڑ دے یا مادام تساد کے عجائب گھر میں اس کا مومی بت ایستادہ کر دیا جائے ، پاکستانیوں کے لئے وہ اور اس کا گھرانہ غدّاری کی علامت ہے، اس کے سوا کچھ نہیں!
طالبان کے عدنان رشید نے اپنے خط میں ایک سوال پوچھا ہے۔ کہا ہے کہ اگر ملالہ ڈرون حملے میں زخمی ہوئی ہوتی تو کیا تب بھی آرمی چیف سے لے کر صدر پاکستان تک ہر قومی شخصیت اسکی پذیرائی کرتی؟ اس سوال کا جواب ان سینکڑوں بچوں کے لاشے دے رہے ہیں جو ڈرون حملوں میں مارے گئے لیکن جن کو قبر تک نصیب نہیں ہوئی اور اخبارات اور قومی میڈیا نے انہیں دہشت گرد قرار دیدیا، یہ لکھ کر کہ امریکہ کے ڈرون حملوں میں اتنے دہشت گرد مارے گئے۔ یہ بچے دہشت گرد نہ ہوتے تو پاکستان کی اہم شخصیات ان کے جنازوں پر ضرور جاتیں، ان کیلئے دعائے مغفرت کرتیں، ان کے لواحقین کو امداد دیتیں اور زخمی بچوں کو سرکاری جہازوں میں علاج کیلئے لندن بھیجتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، اس لئے کہ ان بچوں میں سے کسی نے بش اور اوباما کو اپنا ہیرو قرار نہیں دیا تھا، ان سب کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ تھیں، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ نہیں تھیں، وہ ’’ہماری جنگ‘‘ کا ایندھن بننے کے لئے پیدا ہوئے تھے اسی لئے کوئلہ بنا دیئے گئے۔ خس کم جہاں پاک، ہماری جنگ زندہ باد، ملالہ زندہ باد!
بشکریہ روزنامہ نئی بات مورخہ 22 جولائی 2013 بروز پیر
No comments :
Post a Comment