Sunday, July 7, 2013

کچھ مصر کا احوال - جناب عبداللہ طارق سہیل کے قلم سے


زیتون کی شاخ کسے کہتے ہیں؟ باقی دنیا میں تو جسے بھی کہتے ہوں، مصر میں مشین گن کوکہتے ہیں! مصر کے قائم مقام صدر نے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد قوم سے خطاب کیا اور اخوان المسلمون کو ، جس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد فوج نے صدارت ان کے حوالے کی، زیتون کی شاخ کی پیشکش کی۔ اور کہا کہ اخوان کو قومی عمل میں شامل کیا جائے گا۔
زیتون کی شاخ اخوان کے مظاہرین کو عملی طور پر پیش کی گئی یعنی ان پر مشین گن سے فائرنگ کرکے ایک ہی دن میں50 افراد ہلاک کر دیئے گئے، سینکڑوں زخمی اور نہ جانے کتنے گرفتار ہوئے۔

قومی عمل کی وضاحت کے لئے یہ خبر کافی ہے کہ ہزارہا کارکنوں کے علاوہ اعلیٰ قیادت کے 300عہدیدار بھی گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ ان میں اخوان کے معمر مرشد عام محمد بدیع بھی شامل ہیں۔ انہیں اور ان سمیت درجن بھر سے زیادہ رہنماؤں کو سزائے موت دینے کا غیر اعلانیہ فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سزائے موت کا فیصلہ پہلے ہوا، کیس کا انتخاب بعد میں۔ اخوان کی عمارت پر حملہ ہوا تو محافظوں کی فائرنگ سے8افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ لوگ مرنے سے پہلے عمارت کو آگ لگا چکے تھے۔ انہی افراد کی ہلاکت کو قتل قرار دے کر محمد بدیع اور دوسری قیادت کو ملزم نامزد کیا جا چکا ہے۔اس کے علاوہ ایک مقدمہ توہین عدالت کا بھی تیار ہوگیا ہے۔

اخوان کے لئے پھانسیاں نئی بات نہیں۔ صہیون کے بھیس بدلے ہوئے خصوصی نمائندے جمال ناصر نے ہزاروں اخوانیوں کو پھانسیاں دیں۔ یہ جمال ناصر وہی تھا جس کا گھر یہودی دو شیزاؤں سے بھرا رہتا تھا۔ صہیون کے اس خادم خاص نے آخری حقِ خدمت یہ ادا کیا کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بہانے اپنی ساری فضائی قوت چند منٹوں میں تباہ کرا دی۔ ڈرامہ بڑا سمارٹ تھا۔ ایئر فورس کو حکم دیا، تمام جہاز ایک ہی اڈے پر جمع کر دو، اسرائیل پر حملہ کرنا ہے۔ چنانچہ تمام جہاز ایک ہی ایئرپورٹ پر لا کھڑے کئے گئے اور حسب پروگرام اسرائیل نے ایک ہی ’’سارٹی‘‘ میں مصر کی ساری فضائی قوت چند سیکنڈ میں جلا کر راکھ کر دی۔ اس کے بعد صہیون کا دوسرا نمائندہ حسنی مبارک آیا اور اب یہ تیسرا ہے۔ یہودی سچ ہی کہتے ہیں، مصر بھلے سے مسلمانوں کی اکثریت کا ملک ہے لیکن ہماری جاگیر ہے۔

مرسی کے جرائم سبھی ناقابل معافی تھے لیکن سرفہرست یہ تھا کہ انہوں نے غزہ کا محاصرہ (جو حسنی مبارک نے کر رکھا تھا) ختم کر دیا۔ اسرائیل کے لئے یہ منظر سوہان روح تھا کہ غزہ کے عوام کو خوراک اور دوائیں مل رہی ہیں اور اب غزہ کے بچے اس تعداد میں نہیں مر رہے تھے جس تعداد میں خوراک اور دوائیں نہ ملنے کی وجہ سے مبارک کے نا مبارک دور میں مرتے تھے۔

مصر کی فوج نے عوام کا ساتھ دیا، وہ عوام جو ایک لاکھ کی تعداد میں التحریر سکوائر پر میلہ لگائے ہوئے تھے جس میں ایک سو لڑکیوں کو بے آبرو کیا گیا ، رہے وہ عوام جو ان ایک لاکھ میں شامل نہیں تھے،تو وہ مصری فوج کے نزدیک کسی گنتی میں نہیں ہیں۔

اخوان کا ذاتی دشمن، مصر کا عبوری صدر اور مصری فوج ناصر اور مبارک کے دور کا احیا کر سکتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے جا سکتے ہیں لیکن یہ مہ وسال وہ نہیں جو ناصر اور مبارک کے نصیب میں آئے تھے ۔ وقت کافی آگے بڑھ چکا ہے، خون ارزاں کرنا بے شک آسان ہے لیکن اس کی گراں قیمت ادا کرنا مشکل ہو جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات مورخہ 6 جولائی 2013ء بروز ہفتہ
بشکریہ الاخوان اردو فیس بک برائے تصاویر




















No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...