ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد مجھے ایل ایل بی کا امتحان بھی دینا تھا، جو چھ ماہ بعد تھا، چنانچہ میں نے ایم اے ہسٹری میں داخلہ لے لیا جس کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر محمود حسین تھے، وہ اس وقت شعبہ آرٹس کے ڈین بھی تھے، الیکشن کا چسکہ تو پڑ ہی چکا تھا، سوچا کہ کیوں نہ سیکرٹری ہسٹری سوسائٹی کا الیکشن لڑا جائے، اس دفعہ بھی وہ ترکیب کام آئی، یعنی لڑکیوں سے وعدہ لے لیا
اور جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ میرے اور میرے مدمقابل کے ووٹ برابر ہیں، ڈاکٹر محمود حسین کے پاس سب پہنچے کہ وہ اپنا کاسٹک ووٹ، بحیثیت ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ استعمال کیرں، ڈاکٹر صاحب بڑے گھبرائے کہنے لگے تم دونوں آپس میں طے کرلو، میں بیچ میں نہیں پڑوں گا۔ آخر طے ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کا چپڑاسی ہم دونوں کے نام کے قرعہ میں سے جو بھی اٹھائے گا وہی سیکرٹری ہسٹری سوسائٹی منتخب سمجھا جائے گا، شومئی قسمت کہ قرعہ میرے نام نکل آیا اور اس طرح میں منتخب ہوگیا۔ اب منتخب ہوکر کچھ کرنا بھی تھا۔ ہمارے ایک بہت ہی شریف النفس پروفیسر تھے، پروفیسر رحیم، ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، انہوں نے کہا کہ انڈس ویلی دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ہے، اس کے علاوہ لاہور اور پشاور بڑے تاریخی شہر ہیں، یہ سوچ کر ہم نے یونیورسٹی کی اجازت سے مغربی پاکستان کے ٹور کا پروگرام بنایا، یہ دو ہفتہ کا پروگرام دسمبر کی چھٹیوں میں تھا۔ ہمارا گروپ سات لڑکوں، پانچ لڑکیوں اور پروفیسر رحیم پر مشتمل تھا، یونیورسٹی نے ہمیں اس مد میں تین ہزار روپے دیئے تھے جبکہ پروفیسر رحیم کو ایک ہزار روپے، ہم نے فی کس ساٹھ روپے اور اکٹھے کئے اور رخت سفر باندھا، ہماری پہلی منزل لاہور تھی جہاں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام پنجاب یونیورسٹی نے کیا تھا، ہم نے خیبر میل میں اسٹوڈنٹ کنسیشن کے ساتھ سیکنڈ کلاس میں بکنگ کرائی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ سب سے کہہ دیا تھا کہ سوچ سمجھ کر کھائیں پئیں جونہی پیسے ختم ہوئے ہم واپس آجائیں گے۔
لاہور پہنچے تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہمارے وائس چانسلر، اے بی اے حلیم صاحب اسٹیشن پر موجود تھے، ان کے ساتھ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری اختر صاحب بھی تھے، ہماری ٹرین کوئی پون گھنٹے دیر سے پہنچی، اختر صاحب نے بتایا کہ حلیم صاحب ہم سے ہی ملنے کے لیے اسٹیشن آئے تھے اور ہمارے انتظار میں پلیٹ فارم پر ٹہلتے رہے، ان کی کوئی میٹنگ ایک روز پہلے لاہور میں تھی۔ لاہور میں ہم پنجاب یونیورسٹی کے مہمان تھے، دو دن تک لاہور کے تاریخی مقامات دیکھے، علامہ اقبال کے مقبرے پر یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے اردو شاعر کے مزار، فارسی کے اشعار تو کندہ تھے لیکن اردو کا ایک شعر تک نہیں تھا۔ ہمارے ساتھ ایک دوست زیدی بھی تھے، بڑے زندہ دل، انہیں لڑکیوں میں گھسنے کا بڑا شوق تھا، کوئی موقع ان کی خدمت کا ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، لڑکیاں بھی خوش تھیں کہ بھاگ دوڑ کے کام کرنے کے لیے کوئی مل گیا ہے، وہ ہر ہر بات کے لیے وہ ان کو بلاتی تھیں، زیدی نے اپنی زندہ دلی سے شالیمار باغ میں لڑکیوں کی ریس کرادی جو تہذیب آغا نے جیتی، یہ جسٹس آغا کی صاحبزادی تھیں، جو ہائی کورٹ کے جج تھے، ان کی شادی پروفیسر ستار خیری کے بیٹے کرنل خیری سے ہوئی، جو رشتے میں میرے چچا تھے، بہر حال پھر زیدی نے لڑکوں کی بھی ریس کرائی، آخر میں انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر رحیم سے کہا کہ آپ تہذیب آغا کو ہرا کر دکھائیں گے تو میں سب کو چائے پلائوں گا ورنہ آپ پلائیں گے، پروفیسر رحیم نے بڑی خندہ پیشانی سے چیلنج قبول کرلیا۔ ہمارے پروفیسر رحیم ہار گئے اور انہوں نے شالیمار باغ میں چائے والے لڑکے کو آواز لگائی لیکن ہم طے کرکے بیٹھے تھے کہ کسی اچھے ریسٹورنٹ میں ڈاکٹر صاحب سے چائے پئیں گے، چنانچہ مال روڈ پر پاک ٹی ہائوس کے سامنے کی قطار میں ایک بہت اچھا ریسٹورنٹ تھا، اس کے فیملی روم میں جو اوپر کے حصے میں تھا، چائے کا آرڈر دیا، ساتھ ہی میں نے زیدی کو دوڑوا دیا کہ بیرے سے کہنا چائے کے ساتھ اسنیک کی ہر چیز لائی جائے اوریہ بھی اعلان کردیا گیا کہ جو کچھ کھانا ہے کھالو، رات کا کھانا نہیں ہوگا، یہ 31 دسمبر 1956ء کی شام تھی اور طالب علمی کا بھی آخری سال۔ لاہور کے بعد ہم ٹیکسلا، پنجہ صاحب مری، نتھیاگلی ہوتے ہوئے ایبٹ آباد پہنچے اور انگریزی فلم Seven Brides for Seven Brother دیکھی انتہائی دلچسپ اور مزاحیہ فلم تھی۔ ہوٹل میں سردی اتنی زیادہ تھی کہ ہم سب نے اپنے اوور کوٹ پہنے پہنے بھالو ڈانس کیا، پھر پشاور پہنچے جہاں ہمرا انتظام ایئر فورس میں کیا گیا تھا۔ بڑی خاطر مدارت ہوئی، درہ خیبر سے ہوتے ہوئے پاکستان افغانستان بارڈر گئے، واپسی میں طورخم میں خریداری کے باوجودلڑکیاں قصہ خوانی بازار جانے پر مصر تھیں کہ مزید خریداری کریں گی، قصہ خوانی بازار پہنچے تو آگے آگے لڑکیاں اور پیچھے پیچھے جم غفیر… سب ڈر کر ٹانگوں میں سوار ہوگئیں، وہاں عورتیں برقعوں میں نکلتی تھیں، جب واپس خیبر میل سے کراچی کیلئے روانہ ہوئے تو سارے پیسے ختم ہوچکے تھے، ہمارے پروفیسر رحیم ہی ہمارے کام آئے۔
اس دور میں، میں نے شفیق الرحمن اور حجاب امتیاز علی سے شروع ہوکر حالیؔ، آزادؔ، میرؔ، غالبؔ اور اقبال تک اور موپساں، چیخوف اور اوہنری سے لے کر ڈکنس، ذولا، ہمنگ وے، ٹالسٹائی، ایچ جی ویلز، برنارڈ شاہ، ابسن، ایلیٹ اور شیکسپیئر تک پڑھ ڈالا، کچھ سمجھا، کچھ نہیں سمجھا، کہانیوں اور ناولوں کے میدان میں فرانسیسی اور روسی ادیبوں نے تو کمال ہی کردیا، میرا مشاہدہ ہے کہ اعلیٰ درجے کا ادب انسان کو اعلیٰ انسانی اقدر کا حامل بناتا ہے اور اس سخت رویے سے دور رکھتا ہے جو ملکی، جماعتی اور شخصی سطح پر معاشرے کو تنزل کی طرف لے جاتا ہے۔
(خودنوشت’’جاگتے لمحے‘‘ سے ماخوذ)
No comments :
Post a Comment