Thursday, July 25, 2013

ملالہ کے ایک ہمدرد کالم نگار کا ملالہ کے والد اور میڈیا کمپنی کے رویوں پر اظہارِ تعجب


عظیم ایم میاں جنگ کے صفحات میں ملالہ کے حق میں کالم لکھ چکے ہیں۔ جس میں انہوں نے دل کھول کر ملالہ کی اور اس کی تعلیم سے کمٹمنٹ کی تعریف کی تھی۔ میاں صاحب نے اپنے حالیہ کالم میں بھی ملالہ کی تعریفیں کی ہیں لیکن بچوں کی نگہداشت کے امریکی قوانین  کی روشنی میں جس طرح سے ملالہ کے والد اور  میڈیا کمپنی کے رویوں کا ذکر کیا ہے، وہ سوچنے سمجھنے والے قارئین کے لیے بین السطور میں پڑھنے کے لیے بہت کچھ چھوڑتا ہے۔ اس کو پڑھ کرملالہ کے ایک پپٹ ہونے کا تاثر مذید پختہ ہو جاتا ہے۔ان شکوک کو مذید ہوا ملتی ہے جو سوشل میڈیا میں پہلے سے ہی کھلے الفاظ میں مباحث کا موضوع ہیں۔ ضرور پڑھیے۔



"قابل فخر ملالہ کے اپنے حقوق کی بات؟ امریکی قوانین...عظیم ایم میاں…نیویارک

میں اس جدید امریکی معاشرے میں رہ کر آپ قارئین کیلئے یہ کالم نذر کرتا ہوں جہاں ”چائلڈ ویلفیئر “ کے عنوان سے بچوں کے حقوق اس قدر واضح ، اہم اور قانونی ہیں کہ اگر ان بچوں کی پیدائش اور پرورش کے ذمہ دار والدین بھی بچوں کے حقوق کی فراہمی اور تعمیل میں کوئی ذرا سی غفلت کریں تو یہاں کے قوانین میں والدین کیلئے ”بچے سے غفلت برتنے کی سزائیں مقرر ہیں اور بچے کو والدین سے چھین کر حکومت خود بچے کی پرورش کرتی ہے۔ بچے کو مارنا، اس پر زبردستی اپنی مرضی مسلط کرنا، اسے کسی نفسیاتی یا گھٹن والے دباؤ کا شکار بنانا، یہ سب کچھ اس زمرے میں آتا ہے۔ یہ تو وہ معاشرہ ہے جہاں ہر پیدا ہونے والا بچہ جب مکمل جملے بولنا سیکھتا ہے تو اولین جملوں میں اپنی پسند یا ناپسند بتانے کے ساتھ ساتھ (I Think) کہہ کر اپنی سوچ کا بھی کھلا اظہار کرتا ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی میری نظر میں ہے کہ چند سال قبل منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق صرف نیویارک ریاست کی حدود میں مسلمان گھرانوں کے3000 سے زائد بچے چائلڈ ویلفیئر کے انہی قوانین کے تحت اپنے والدین سے علیحدہ ہو کر حکومتی تحویل میں اپنے والدین سے لاتعلق اپنے کلچر ، مذہبی اقدار، وراثت سے دور ”فوسٹر ہوم“ یعنی غیر مسلم گھرانوں میں حکومتی فنڈ سے زندگی گزار رہے تھے چونکہ تحویل میں لئے جانے والے بچوں کے مذہب کا اندراج نہیں کیا جاتا لہٰذا تعداد کا حتمی تعین ممکن نہیں ہے۔ ان بچوں میں کوئی 400 پاکستانی نژاد بچے بھی تھے۔ اس شعبے میں سرگرم ”اکنا“ نامی مسلمان تنظیم کے سرگرم رکن معوذ صدیقی نے بھی ان اعدادو شمار کی تائید کی ہے۔ یہ بات بھی ”اکنا“ کے ریکارڈ میں ہے کہ انہوں نے پانچ پاکستانی بچوں اور ان کی والدہ کو عدالتی اور قانونی جنگوں کے بعد پاکستان اس لئے واپس بھجوادیا کہ 15 سال تک کی عمر کے ان بچوں کی ناخواندہ پاکستانی ماں بچوں کے حقوق اور بچوں کو مارنے پیٹنے سے ممانعت کے قوانین کی تعمیل سے بھی ناواقف تھیں اور بچوں کو حکومتی تحویل میں لئے جانے پر بھی واویلا کرتی تھیں۔ یہاں تو اگر اسکول کا کوئی استاد اپنی کلاس کے کسی بچے کے جسم پر کوئی نشان دیکھ لے یا بچے کی گفتگو سے اسے بچے کے ساتھ کسی جسمانی زیادتی ، نفسیاتی دباؤ یا والدین کے تشدد وسختی کا شبہ بھی ہوجائے تو والدین کے خلاف تحقیقات کی فائلیں کئی ادارے بیک وقت کھول دیتے ہیں۔ بچوں کے حقوق اور ویلفیئر کے حکومتی ادارے متحرک ہو کر دوران تحقیقات بھی بچوں کو تحویل میں لے لیتے ہیں اور ”فوسٹرم ہوم“ کے انتظامات کردیئے جاتے ہیں۔ 18 سال کی عمر قانونی طور پر بالغ کہلانے کا آغاز ہے اور پھر بچے اپنی مرضی اور عمل کے مختار ہیں۔ امریکہ سے زیادہ لبرل قوانین یورپ اور برطانیہ میں ہیں جہاں سے ہم پاکستانیوں کی پیاری اور بہادر بیٹی ملالہ یوسف زئی گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ سے خطاب کرنے کیلئے نیویارک آئی تھی۔
ملالہ کے دورہ اقوام متحدہ کے حوالے سے میرے گزشتہ کالم کے بارے میں بہت سے قارئین نے ای میل اور فون کالز کے ذریعے تعریف ، تنقید ، تجزیہ اور تبصرہ سے باخبر کیا۔ اکثریت نے ملالہ یوسف زئی کی ہمت، فروغ تعلیم اور بچیوں کے حقوق کے کاز سے لگاؤ کی تعریف و حمایت کی۔ اس کی کارکردگی پر فخر کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس ”گھٹن“ کے بارے بھی سوالات اٹھائے جس کا ہلکا سا ذکر میرے کالم کے آخر میں تھا۔ بعض کرم فرماؤں نے تو اس حوالے سے اپنی حاشیہ آرائی کی جبکہ سوشل میڈیا تو پہلے ہی ملالہ کے بارے میں اس کے کاز کی حمایت و مخالفت میں خاصا مصروف ہے۔ مجھے تو ملالہ کے دو روزہ دورہ اقوام متحدہ نے خوشی ، فخر اور پاکستانی شناخت کا احساس بھی دیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ گھٹن اور تحفظات کے اندیشے بھی لاحق کئے ہیں اور اس کی دلیل اور تناظر مذکورہ بالا وہ تمہید ہے جو امریکہ اور مغربی معاشروں میں بچوں کے حقوق ، آزادی اور قوانین ہیں جو مجھے اس ”گھٹن“ سے ٹکراتے دکھائی دیتے ہیں جو میں نے ملالہ کے اردگرد قیام نیویارک کے دوران محسوس کی ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے قابل فخر 16 سالہ پاکستانی بیٹی کے طور پر اقوام متحدہ میں روشن خیالی ، فروغ تعلیم اور بچیوں کے حقوق کے موضوع پر اقوام متحدہ سے خطاب کرکے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کیا ہے اس کی تقریر بڑے بڑے دانشوروں اور بزرگوں کیلئے بھی خوشی اور فخر کا باعث ہیں۔ 12جولائی کو اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد ایک بالغ نظر ، کاز لیڈر اور شاید نوبل پرائز کی بجاطور پر ممکنہ امیدوار بھی ہوچکی ہیں۔ وہ پاکستان اور دیگر ممالک کی بچیوں کے حق تعلیم اور دیگر مساویانہ حقوق کی بات بھی کررہی ہیں جو لائق ستائش ہے مگر ملالہ کے اپنے حقوق کہاں ہیں؟ اس کے حقوق اور اس کی آزادی پر دوسروں نے کیوں اور کیسے پہرے بٹھا دیئے ہیں اس کو صرف کیمرے کا فوکس بنا کر خاموش رہ کر تصاویر کھنچوانے تک محدود کردیا گیا۔ اتنی بالغ اور برجستہ تقاریر کرنے والی اور تقریر میں بامقصد اشعار پڑھنے والی اپنے اردگرد خواتین اور مردوں کے ہجوم میں ایک بھی بامقصد جملہ بولے بغیر درجنوں تصاویر خاموشی سے کھنچوا کر عجیب تاثر دے رہی تھی۔ اس کے اردگرد ان کے والد یوسف ضیا اور میڈیا کمپنی کا اس قدر تنگ حصار ہے کہ یہ طے کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی کہ اصل ملالہ کون ہے؟ جو اقوام متحدہ میں تقریر کررہی تھی یا پھر وہ 16 سالہ خاموش ملالہ جو ایک گھٹن والے حفاظتی حصار میں کسی سوال کے جواب یا تبصرہ یا انکار کے چند جملے بھی بولنے کے حق سے محروم ہے؟ کیا یہ ایک 16 سالہ ایسی بچی کے حقوق اور آزادی کی خلاف ورزی نہیں جو دنیا کے تمام پسماندہ ممالک کی بچیوں کے حق تعلیم اور حقوق نسواں کی عالمی ترجمان بن چکی ہے؟ اس بارے میں جواز یہ دیا جاتا ہے کہ ملالہ کی کتاب آنے والی ہے میڈیا کمپنی کی پابندی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی میڈیا کمپنیاں اور پبلشنگ ہاؤسز ہر سال بے شمار کتابیں شائع کرتے ہیں لیکن کتاب کے مصنفین کو ایسی کسی پابندی کا شکار نہیں بناتے بلکہ وہ مختلف ٹی وی پروگراموں میں جاکر بات کرتے ہیں اور اگر کوئی سوال کتاب کے مندرجات کے بارے میں ہو تو وہ کنٹریکٹ کے مطابق اس بارے میں کتاب کی اشاعت تک کوئی جواب نہیں دیتے۔یہ عجب بات ہے کہ 16سالہ ذہین سمجھدار بچیوں کے کاز کی رہنما، اقوام متحدہ میں شاندار استقبال اور تقریر کرنے والی پاکستانی بچی کو اس کے حقوق سے محروم رکھا جائے اور اس کے والد اس کی ترجمانی کریں۔ یہ کونسا اور کیسا کاز ہے۔ عالمی شہرت کی حامل حقوق نسواں کی چمپئن بچی کو اس کی کم عمری کا سہارا لیکر ایک بت بنا کر خاموشی اور حصار میں رکھا جائے؟ کیا امریکی یا برطانوی معاشرہ قوانین اور معاشرت اس کی اجازت دیتا ہے؟ جبکہ ملالہ کی ہم عمر اور ہم جماعت طالبات پاکستانی معاشرے میں رہتے ہوئے بولنے کی آزادی استعمال کررہی ہیں۔ جن دنوں ملالہ اقوام متحدہ میں مصروف تھیں ایک اور 14 سالہ پاکستانی لڑکی عائشہ حلیم عادل شیخ بھی اقوام متحدہ ، نیویارک اور واشنگٹن میں بطور یوتھ لیڈر سرگرم تھی۔ یہ بھی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک پروگرام میں منتخب ہو کر آئی تھی۔ اس کے والد جو سندھ حکومت میں صوبائی مشیر رہ چکے ہیں اور کراچی میں مسلم لیگ (ق) کے سرگرم عہدیدار حلیم عادل شیخ اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے خرچ پر آئے ہوئے تھے مگر وہ اپنی 14سالہ بچی کی نہ تو ترجمانی کررہے تھے اور نہ ہی عائشہ کے گرد کوئی حصار تھا۔ اس نے ملالہ سے ایک روز قبل اقوام متحدہ کے ایک ہال میں اپنی تیار کردہ تقریر بھی کی ، واشنگٹن اور دیگر شہروں میں بھی یوتھ لیڈر کے طور پر تقریریں کیں، میڈیا کو انٹرویوز بھی دیئے، اقوام متحدہ اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے تعریفی سرٹیفکیٹ بھی حاصل کئے اور خوشی خوشی پاکستان بھی واپس لوٹ گئیں۔ ملالہ تو عائشہ کے مقابلے میں عمر میں بڑی اور کہیں بڑی عالمی شہرت کی حامل ہے اس کے گرد یہ پراسرار حفاظتی حصار اور گھٹن نہ صرف امریکی اور برطانوی ماحول وقوانین سے متضاد ہے بلکہ ملالہ کے اپنے حقوق کی خلاف ورزی اور ملالہ کی شخصیت کی نفی ہے۔"

No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...