اقوام متحدہ کی ’’یوتھ اسمبلی‘‘ میں لگنے والے نعرے۔۔۔ ’’میں ہوں ملالہ‘‘ (I am Malala)۔۔۔کی گونج اب کچھ کچھ معدوم ہوتی جارہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اہلِ ملال کچھ عرصہ کے بعد اِس پُرملال قصے کو بالکل ہی بھول بھال جائیں؟اِس خدشے کے پیش نظرآئیے ہم اس داستان کے دیے کی لو ایک بار پھرکچھ اونچی کردیں۔یوں تو ہونے کو ایسے حملے بہت ہوئے۔ مگر 9اکتوبر 2012ء کو سوات میں ملالہ یوسف زئی اور اُس کی دو ساتھیوں پر حملے کی خبر بی بی سی اور سی این این سے نشر ہوئی تو ہمارے میڈیا کو بھی خبر ہوئی۔
صرف چند گھنٹوں کے اندر اندر یہ دُنیا کی سب سے بڑی ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن گئی۔ یہ خبر اتنی بڑی خبر تھی کہ دُنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے صدر بارک اوباما فوری طور پر وھائٹ ہاؤس کے روسٹرم پر نمودار ہوئے اور اُنھوں نے ملالہ پر حملے کی پُرزور مذمت کی۔ ساتھ ہی اُنھوں نے یہ فراخ دلانہ پیشکش بھی کر دی کہ:’’ امریکا ملالہ کے علاج معالجہ کے لیے ہر ممکن مدد کو تیار ہے‘‘۔اس سے جہاں صدرِ امریکا کی عظمتِ جلالہ کا اظہار ہوتا ہے، وہیں اہمیتِ ملالہ کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ ورنہ صدرِ امریکا کو تو کبھی اتنی فراغت بھی نصیب نہیں ہوئی کہ وہ شہدائے سلالہ کی شہادت پر محض ’’اظہارِ افسوس‘‘ (Sorry) کے لیے بھی وقت نکال سکتے۔ بلکہ جب اُن سے وقت نکالنے کو کہا گیا تو اُنھوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ (انکار کرنے کے لیے البتہ وقت نکال لیا تھا)۔ مگر اِن پُھرتیوں سے کہیں یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ ملالہ پر کیا جانے والا حملہ بھی اُسی کنٹرول رُوم سے مانیٹر کیا جارہا تھا جس سے ایبٹ آباد پر کیا جانے والا حملہ مانیٹر کیا گیا۔
تین۔۔۔خوا۔۔۔تین
آئیے اب کچھ ذکر ہوجائے تین خواتین کا۔ ملالہ پر حملہ ہوتے ہی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی الگ سے اور اپنی طرف سے ملالہ پر حملے کی مذمت کرناضروری سمجھا اور اسے افسوسناک قرار دیا۔سابق امریکی صدر جارج بُش کی اہلیہ لارا بُش نے بھی اس انتہائی اہم، افسوسناک اور عالم انسانی پر اثرانداز ہونے والے تاریخی واقعے سے بے حد متاثر ہوکر امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں ایک مضمون فوری طور پر لکھنے کی مشقت میں مبتلا ہوجانا اپناانسانی فرض جانا اورلکھا کہ:’’ملالہ مجھے ہی نہیں، پوری دُنیا کو انسپائر کر رہی ہے‘‘۔سب سے حیرت انگیز واقعہ یہ پیش آیا کہ ملالہ پر حملہ ہوتے ہی امریکا کی معروف گلو کارہ میڈوناکو بھی سات سمندر پار ہونے والے اِس عالمی واقعے کی فی الفور خبر ہوگئی۔ اُس وقت وہ ایک کنسرٹ میں مبتلا تھیں، سواُنھوں نے فوری طور پر اپنا ایک گیت ملالہ کے نام کردیا اور اپنی (عریاں) کمر پر ملالہ کا مقدس نام لکھوا لیا، جس کی حاضرین نے بڑے تزک و احتشام سے زیارت کی۔
اقوام متحدہ نے ملالہ کی سالگرہ منائی
ملالہ پر حملہ ہوتے ہی اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون بھی فوراً متحرک ہوگئے۔اُنھوں نے ملالہ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’میں تعلیم سے متعلق ملالہ کی جد و جہد سے بہت متاثر ہوا ہوں‘‘۔عام پاکستانی شہری ہی نہیں پاکستان کے دانشور، تجزیہ نگار اور کالم نویس بھی اپنی بے حسی اور بے خبری کے باعث ملالہ پر حملہ ہونے سے قبل اُس کی قابل قدر جد وجہد سے سراسر ناواقف نکلے۔ مگر اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل ایک طول طویل مدت سے(جو شاید ملالہ کی عمر سے بھی زیادہ طویل ہو) اقوام متحدہ کے دفترمیں اپنی کرسی پر بیٹھے ملالہ کی جد و جہد کا بہ نظر غائر مطالعہ فرما رہے تھے۔اورمتاثر ہوتے جارہے تھے۔بہر حال،ملالہ کی دو زخمی ساتھیوں کو یہیں چھوڑ کر صرف ملالہ کو برطانیہ کے شہر بر منگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال منتقل کر دیا گیا۔جہاں دُنیا کے ماہر ترین ڈاکٹروں نے ملالہ کی کنپٹی پر لگنے والی گولی ہی نہیں، گولی سے پڑنے والے زخم کے نشان کو بھی چشم زدن میں معجزاتی طور پر غائب کردیا۔جوپٹی پاکستان میں تمام وقت سر پر بندھی رہی اور میڈیا پر دکھائی جاتی رہی، وہ برمنگھم جاکر کھلی تودیکھا کہ الحمد ﷲ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ معجزہ یہ بھی ہوا کہ ملالہ کے ابا کو برمنگھم کے پاکستانی کونسلیٹ میں فی الفور تعلیمی اتاشی کی نوکری مل گئی۔ایسی نوکریوں کے لیے جو قاعدہ قانون مقرر ہے اُس کو پوراکیے بغیر۔ مگر تعجب ہے کہ یہ دیکھ کر بھی کچھ لوگ ایسے ہیں، جومعجزات پر ایمان لانے سے ہنوز انکاری ہیں۔ مقامِ شکر ہے کہ ملالہ صحت یاب ہوئی اور اماں، ابا سمیت امریکا جا پہنچی۔گویا لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اپنی جد وجہدکے ثمرات کے حصول میں کامیاب ہوگئی۔ ’’گل مکئی کی ڈائری‘‘ لکھنے سے لے کر اقوامِ متحدہ میں کی جانے والی تقریر لکھنے تک ملالہ کو مجسم ’’عالمی اشتہار‘‘ بنادینے میں والد محترم کا جو انتھک کردار رہا ہے، اُس کی داد نہ دینااُن کی حق تلفی ہوگی۔نہیں معلوم کہ پشتو زبان میں اس قسم کے والد محترم کے لیے کس قسم کے القاب استعمال ہوتے ہیں۔
اب پھر اقوامِ متحدہ کی سنیے۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ یہ ادارہ کس قدر مصروف رہتاہے۔فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ 65برس سے زائد عرصہ سے معرضِ التوا میں پڑا ہوا ہے،مگر اپنی بے پناہ مصروفیات کے سبب اِس ادارے کو ان عالمی مسائل پر پر توجہ دینے کے لیے فرصت ہی نہیں ملتی۔ دُنیا بھر میں آئے دن بے شمار بھیانک اور درد ناک جرائم کا ارتکاب ہوتا رہتا ہے، مگر یہ کس کس کا نوٹس لے؟ عافیہ صدیقی کا معاملہ تو شاید اقوامِ متحدہ کے علم میں ہی نہیں آسکا۔ کچھ ایسی ہی صورت ’’شہیدۃ الحجاب‘‘ مروہ الشربینی کے ساتھ بھی ہوئی ہوگی۔مگر ملالہ کی سال گرہ منانے کے لیے اِس عالمی ادارے نے وقت نکال کر پوری ایک تقریب منعقد کرڈالی۔کیا یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات نہیں ہے؟
پاکستان سے برمنگھم لے جانے برمنگھم سے امریکا جانے اور اقوامِ متحدہ کی تقریب منعقد کروانے تک جتنے پاؤنڈ اور جتنے ڈالر خرچ ہوئے ہیں وہ سب کے سب یوں سمجھ لیجیے کہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم عام کر نے پر خرچ ہوگئے ہیں۔ اس خرچے سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے بڑے شہروں میں کچرے کے ڈھیر سے خوراک چننے والی ننھی مُنی بچیوں ہی میں نہیں، سوات، وانا اور وزیرستان کی بچیوں میں بھی تعلیم کا تناسب یکایک بڑھ گیا ہے۔ سچ ہے ملالہ لڑکیوں میں تعلیم عام کرنے کی علامت بن گئی ہے۔ یہ بات دُنیا تسلیم کر رہی ہے، توہم کیسے نہ مانیں؟
No comments :
Post a Comment